ہیٹر اور چولہے کے سامنے نماز کا حکم ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1768

تاریخ اجراء:23 جمادی الاولیٰ1441ھ/21جنوری2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گیس والے ہیٹر کے سامنے نماز کا حکم ؟ نیز ہیٹر کے ساتھ چولہے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ، ان کے سامنے نماز کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    گیس کے ہیٹروں میں عموماً ایک جالی لگی ہوتی ہے اور وہ جالی آگ کی وجہ سے سرخ ہوجاتی ہے،لیکن وہاں نہ تو انگارے ہوتےہیں اور نہ ہی بھڑکتی ہوئی آگ ہوتی ہے، لہٰذا اگر نمازی کے سامنے اس قسم کا چلتا ہوا ہیٹر ہو،تو اس میں کراہت نہیں، کیونکہ مجوسی ( یعنی آگ کی پوجا کرنے والے لوگ ) اِ س کی پوجا نہیں کرتے اور اگر بھڑکتی ہوئی آگ یا دہکتے انگارو ں کا تنور یاچولہا وغیرہ سامنےہو،تو یہ مکروہِ تنزیہی ہے،کیونکہ مجوسی سامنے بھڑکتی ہوئی آگ یا دہکتے انگارے رکھ کر پوجا کرتے ہیں ، تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ  مشابہت ہوگی ۔

    چنانچہ محیط برہانی پھربنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’ان توجه الى سراج او قنديل او شمع لا يكره بخلاف اذا توجه الى تنور او كانون فيه نار تتوقد فانه يكره لانه يشبه العبادة لانه فعل المجوس فانهم لا يعبدون الا نارا موقدة‘‘ ترجمہ:اگر کسی نے چراغ،لالٹین یا شمع کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی،تو یہ مکروہ نہیں،بخلاف اس صورت میں کہ جب تنور یا ایسے چولہے کی طرف منہ کر کےنماز پڑھی ، جس میں آگ بھڑک رہی ہو،تو یہ مکروہ ہے کہ اس میں آگ کی عبادت سے مشابہت ہے ،کیونکہ یہ مجوسیوں کا فعل ہےکہ وہ بھڑکتی  آگ ہی کوپوجتے ہیں  ۔

(البنایہ،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،فصل فی العوارض ،ج2،ص549،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی قاضی خان میں ہے:’’ویکرہ ان یصلی وبین یدیہ تنور او کانون فیہ نار موقودۃ لانہ یشبہ عبادۃ النار وان کان بین یدیہ سراج او قندیل لا یکرہ لانہ لا یشبہ عبادۃ النار‘‘ تنور یا ایسا چولہا،جس میں بھڑکتی آگ   ہو،تواس کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے ،کیونکہ یہ آگ کی عبادت کے مشابہ ہے اور اگر نمازی کے سامنے چراغ یالالٹین  ہو،تو اس میں کراہت نہیں ،کیونکہ یہ آگ کی عبادت کے مشابہ نہیں ۔

(فتاوی قاضیخان،کتاب الصلاۃ،باب الحدث فی الصلاۃ وما یکرہ فیھا وما لا یکرہ،ج 1،ص112،مطبوعہ کراچی)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’شمع یاچراغ یاقندیل یالیمپ یالالٹین یافانوس نمازمیں سامنے ہو،تو کراہت نہیں کہ ان کی عبادت نہیں ہوتی اوربھڑکتی آگ اور دہکتے انگاروں کا تنور یابھٹی یاچولہا یاانگیٹھی سامنے ہوں ، تومکروہ کہ مجوس ان کوپوجتے ہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج24،ص619، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    اس مکروہ سے مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔ جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مکروہاتِ تنزیہیہ کے بیان میں فرماتے ہیں : ” جلتی آگ نمازی کے آگے ہونا باعث کراہت ہے، شمع یا چراغ میں کراہت نہیں۔ “

(بھارِ شریعت ، جلد 1، حصہ 3 ، صفحہ 636 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم