دوران نماز تحریر کو دیکھ کر صرف سمجھا،زبان سے نہیں پڑھا، تو نماز کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11146

تاریخ اجراء:14ربیع الثانی1442ھ/30نومبر2020

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کےبارےمیں کہ ایک دن  میں اپنےکمرے میں نمازپڑھ رہاتھا ،قیام  میں  دورانِ قراءت سامنے والی دیوار پرلکھی ہوئی ایک تحریر پر میری نظر پڑی،تحریر واضح نہیں تھی۔میں نے قراءت کرتے ہوئے  اس تحریر کوسمجھنے کےارادےسے کچھ دیر  بغور دیکھا، تو وہ سمجھ آگئی ۔ لیکن اس دورا ن میں قراءت کرتارہا ،زبان سے اس  تحریر کو نہیں پڑھااورنماز مکمل کرلی۔کیا اس طرح نماز  میں تحریرکو بغور دیکھ کرسمجھنے سے میری نما زفاسد ہوگئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی  گئی صورت میں آپ  نے  دیوار پر  لکھی ہوئی تحریر کو زبان سے نہیں پڑھا ،صرف سمجھا ہے،تو آپ کی نماز فاسد نہیں ہوئی، ادا ہوگئی ہے ، البتہ نمازمیں کسی تحریر کوقصداً(جان بوجھ کر)دیکھنااوراسےسمجھنا،نمازکےآداب کےخلاف ہے۔نمازکےآداب میں سےیہ ہے کہ قیام کےدوران نظرسجدے کی جگہ پر ہو،بلاضرورت (بغیر چہرہ گھمائے)اِدھر اُدھر دیکھنابھی مکروہ تنزیہی وناپسندیدہ  ہے،لہذا خشوع وخضوع اورکامل توجہ کےساتھ نماز ادا  کی جائے۔

    مراقی الفلاح  میں ہے :” لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه، سواء كان قرآنا أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام“یعنی:اگر نمازی  نے کسی تحریر کو دیکھا اور اسے سمجھا ،خواہ وہ تحریر قرآن  ہو یا کچھ اور ہو اور اسے سمجھنے کاارادہ ہو یا نہ ہو، یہ بے ادبی ہے اورالفاظ  نہ بولنے  کی وجہ سےاس کی نماز فاسد نہیں ہوگی ۔

    اس کےتحت حاشیہ طحطاوی میں ہے:”وجه عدم الفساد أنہ إنما يتحقق بالقراءة،وبالنظروالفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق۔۔۔۔قوله:(أساء الأدب)لأن فيہ إشتغالاعن الصلاةوظاهره ان الكراهة تنزيهية وهذا إنما يكون بالقصد وأمالو وقع نظره عليه من غير قصده وفهمه فلا يكره“یعنی نماز فاسد نہ ہونے کی  وجہ یہ ہےکہ نما زکا فساد پڑھنےسے ثابت ہو تاہے ۔ تحریر کو دیکھنا  اور سمجھنا، پڑھنا نہیں۔ اسی کی طرف مؤ  لف نے اپنے قول(لعدم النطق) سے  اشارہ کیا ہے اور  مؤ  لف کا قول کہ یہ بے ادبی ہے،اس کی وجہ یہ ہےکہ ایسا کرنا نماز  سے  بے رغبتی ہے ،کلام کا ظاہر یہ ہےکہ  کراہت تنزیہی ہےاوریہ مکروہ بھی اس صورت میں ہے کہ  جب ارادتاً  ہو ۔ اگر بغیر ارادے کے نظر پڑ گئی اور لکھا ہوا سمجھ آگیا  تو مکروہ نہیں ۔

 (حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد01،صفحہ460، مکتبہ غوثیہ ،کراچی)

    بحر الرائق میں ہے:”ولم يذكروا كراهة النظر إلى المكتوب متعمدا وفي منية المصلي ما يقتضيها فإنه قال ولو أنشأ شعرا أو خطبة ولم يتكلم بلسانه لا تفسد وقد أساء وعلل الإساءة شارحها باشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة من غير ضرورة “یعنی: فقہاءنے مکتوب کی طرف قصداً نظر کرنے کی کراہت کو ذکر نہیں کیا اور منیۃ المصلی میں وہ ہے جو کراہت کا تقاضا کرتاہے، انہوں  نےکہا کہ اگر کوئی نمازمیں شعر بنائے یا خطبہ ترتیب دے اور زبان سے کچھ نہ کہے،تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی اوراس نے بُرا کیا ۔منیۃ المصلی کے شارح نے بُرا ہونے  کی وجہ یہ بیان کی کہ بلا ضرورت نماز کے علاوہ افعال میں مشغول ہوا ۔

 (بحر الرائق ،جلد02،صفحہ25، مطبوعہ  کوئٹہ )

    نمازمیں اِدھراُدھردیکھنےکےمتعلق ردالمحتارہے:”وببصره يكره تنزيهاأي من غير تحويل الوجه أصلا“یعنی:بغیر چہرہ گھمائے آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔

(رد المحتارمع الدرالمختار،جلد02،صفحہ495،  مطبوعہ کوئٹہ)

    امداد الفتاح میں آداب ِنماز کے بیان میں ہے:”ونظر المصلی سواء کان رجلا او امراۃ الی موضع سجودہ قائما، حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع“یعنی نمازی خواہ مرد ہو یا عورت اس کی نگاہ قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ ہونا (مستحب ہے )تاکہ اس چیز کی طرف نظر  کرنےسے حفاظت ہو جو خشوعِ نمازمیں خلل ڈالے ۔

(امداد الفتاح ،صفحہ306، مطبوعہ کوئٹہ)

    مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتےہیں :”کسی کاغذپر قرآن مجید لکھا ہوا دیکھا اور اسے سمجھا ،نمازمیں نقصان نہ آیا، یوہیں اگر فقہ کی کتاب دیکھی اور سمجھی ،نماز فاسد نہ ہوئی ،خواہ سمجھنے کے لیےاسے دیکھا،یا  نہیں۔ہاں اگر قصدا دیکھااور بقصد سمجھا ،تو مکروہ ہے اور بلاقصد ہو،تو مکروہ بھی نہیں۔ یہی حکم ہر تحریر کا ہےاور جب غیر دینی ہوتو کراہت زیادہ ۔“

(بھار شریعت ،جلد01،صفحہ609،  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    نماز میں بلاضرورت اِدھر اُدھر دیکھنے کےمتعلق  اسی میں ہے :” اگر مونھ نہ پھیرے ،صرف کنکھیوں سے اِدھراُدھر بلا حاجت دیکھے، تو کراہت تنزیہی ہے اور نادراً کسی غرض صحیح سے ہو،تو اصلاً حرج نہیں ۔“

 (بھار شریعت ،جلد01،صفحہ626،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    نیز نماز کے آداب  بیان کرتےہوئے فرمایا:”حالتِ قیام میں موضع سجدہ  کی طرف نظر کرنا،رکوع میں پشتِ قدم کی طرف،سجدہ میں ناک کی طرف،قعدہ میں گود کی طرف۔“

(بھار شریعت،جلد01،صفحہ538،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم