تنہا فرض شروع کرنے کے بعد جماعت کھڑی ہوجائے ، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مولانا انس مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-9974

تاریخ اجراء:27محرم الحرم 1442ھ/16ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی شخص مسجد میں اپنی فرض نماز پڑھ رہا ہو اور جماعت کھڑی ہو جائے ، تو اس میں کب شریک ہو؟ تفصیلاً بتا دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1) اگر تو پہلی رکعت میں ہے اور جماعت شروع ہو ئی ، توکھڑے کھڑے ایک سلام کے ساتھ نماز توڑ دے اور جماعت میں شامل ہوجائے۔

     (2) اگر پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا اور جماعت شروع ہوئی تو فجر اور مغرب میں سجدوں کے بعدایک سلام کے ساتھ  نماز توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور ظہر، عصر اور عشاء میں دو  رکعتیں مکمل کر کےجماعت میں شامل ہو جائے ۔

     (3)اگر دوسری  رکعت کا سجدہ کر لیا  اور جماعت شروع ہو ئی توفجر اور مغرب میں نماز مکمل کرے اور جماعت میں شامل نہ ہو اور ظہر، عصر اور عشاء میں دو  رکعتیں مکمل کر کےجماعت میں شامل ہو ۔

     (4) اگر تیسری رکعت میں ہے  اور جماعت کھڑی ہو ئی ، تو ظہر ، عصر اور عشاء میں کھڑے کھڑے ایک سلام کے ساتھ نماز توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو اور مغرب میں نماز پوری پڑھے اور جماعت میں شامل نہ ہو۔

     (5)اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیااور جماعت شروع ہوئی تو ظہراور عشاء میں چار رکعتیں مکمل کر کے نفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہو اور عصر میں چار رکعتیں مکمل کرے اور جماعت میں شامل نہ ہو کہ  عصر کے بعد نفل جائز نہیں۔

    رد المحتار میں ہے”شرع في فرض فأقيم قبل أن يسجد للأولى قطع واقتدى، فإن سجد لها، فإن في رباعي أتم شفعا واقتدى ما لم يسجد للثالثة، فإن سجد أتم واقتدى متنفلا إلا في العصر، وإن في غير رباعي قطع واقتدى ما لم يسجد للثانية، فإن سجد لها أتم ولم يقتد “ترجمہ:فرض شروع کیے اور پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے جماعت کھڑی ہو گئی تو نماز توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے ۔اگر پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا ، تو اگر وہ چار رکعتی نماز ہے(یعنی ظہر ،عصراور عشاء) تو دو رکعتیں مکمل کرے اور پھر جماعت میں شامل ہو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کر لے۔ اگر (تیسری کا )سجدہ کر لیا تو (چار رکعت)مکمل کرے اور سوائے عصر کےنفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہو، اور اگر وہ چار رکعتی نماز نہ ہو (یعنی فجر یا مغرب ہو )تو جب تک دوسری کا سجدہ نہ کیا ہو ،نماز توڑ دے اور اگر دوسری کا سجدہ کر لیاتو وہی نماز مکمل کرے اور جماعت میں شامل نہ ہو۔

                                             (رد المحتار،کتاب الصلوۃ،باب ادراک الفریضۃ، جلد 2،صفحہ606 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے”إذا شرع في فرض منفردا فأقيمت الجماعةقطع (بتسليمة قائما)واقتدى(على الصحيح) إن لم يسجد لما شرع فيه أو سجد(للركعة الأولى) في غير رباعية(بأن كان في الفجر أو المغرب فيقطع بعد السجود بتسليمة) وإن سجد في رباعية ضم ركعة ثانية(وتشهد)وسلم لتصير الركعتان له نافلة ثم اقتدى مفترضا، وإن صلى ثلاثا(من رباعية فأقيمت) أتمها ثم افتدى متنقلا إلا في العصر، وإن قام لثالثة(رباعية منفردا) فأقيمت قبل سجوده قطع قائما بتسليمة“ترجمہ:اگر کسی شخص نے تنہا فرض شروع کیے اور جماعت کھڑی ہو گئی تو صحیح قول کے مطابق اگرشروع کی ہوئی رکعت کا سجدہ نہیں کیا توکھڑے کھڑےایک سلام کے ساتھ نماز توڑ دےیا چار کے علاوہ رکعتوں والی نمازیعنی فجر یا مغرب میں پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تو سجدوں کے بعد ایک سلام کے ساتھ نماز توڑ دے اور اقتداء کرےاور اگر چار رکعتوں والی نماز میں پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تو دوسری رکعت اور تشہد ساتھ ملائے اور سلام پھیر دے تاکہ وہ دو رکعتیں نفل ہو جائیں پھر فرض کی اقتداء کرے  اور اگر چار رکعتوں والی نماز میں سے تین رکعتیں پڑھ چکا تھا کہ نماز کھڑی ہوئی تو اس نماز کو مکمل کرے اور پھر سوائے عصر کے نفل کی نیت سے اقتداء کرے اور اگر چار رکعتوں والی  منفردنماز میں تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا اوراس کے سجدے میں جانے سے پہلے جماعت کھڑی ہو گئی تو کھڑے کھڑےایک  سلام کے ساتھ نماز توڑ دے ۔

(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،صفحہ238 ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”تنہا فرض نماز شروع ہی کی تھی یعنی ابھی پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا تھا کہ جماعت قائم ہوئی ، تو توڑکر جماعت میں شامل ہو جائے۔فجر یا مغرب کی نماز ایک رکعت پڑھ چکا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو فوراً نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے اگرچہ دوسری رکعت پڑھ رہا ہو، البتہ دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب ان دو نمازوں میں توڑنے کی اجازت نہیں اور نمازپوری کرنے کے بعد بہ نیت نفل بھی ان میں شریک نہیں ہو سکتا کہ فجر کے بعد نفل جائز نہیں اور مغرب میں اس وجہ سے کہ تین رکعتیں نفل کی نہیں۔“

(بھار شریعت،جلد1،حصہ4 ،صفحہ695-696،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    اسی میں ہے:”چار رکعت والی نماز شروع کر کے ایک رکعت پڑھ لی یعنی پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تو واجب ہے کہ ایک اور پڑھ کر توڑ دے کہ یہ دو رکعتیں نفل ہو جائیں اور دو پڑھ لی ہیں تو ابھی توڑ دے یعنی تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے اور تین پڑھ لی ہیں تو واجب ہے کہ نہ توڑے، توڑے گا تو گنہگار ہو گا بلکہ حکم یہ ہے کہ پوری کر کے نفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہو جماعت کا ثواب پالے گا، مگر عصر میں شامل نہیں ہو سکتا کہ عصر کے بعد نفل جائز نہیں۔“

 (بھار شریعت،جلد1،حصہ4 ،صفحہ696،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    اسی میں ہے:”نماز توڑنے کے ليے بیٹھنے کی حاجت نہیں کھڑا کھڑا ایک طرف سلام پھیر کر توڑ دے۔“

(بهار شریعت،جلد1،حصہ4 ،صفحہ697،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم