نماز کے علاوہ دیگر اذانوں کے جواب دینے کا حکم ؟

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar-7199

تاریخ اجراء:03رجب المرجب1442 ھ16فروری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں  کہ نمازِ پنجگانہ کی اذانوں کا جواب دیا جاتا ہے،توکیا نمازکی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں  کا بھی جواب دیا جائے گا،جیسے بچے کی پیدائش کے موقع پر جو بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے اوریونہی آجکل کرونا وائرس  وبا کے زمانے میں جو اذان دی جاتی ہے،تو کیا سننے والااس اذان کا بھی جواب دے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانیں جیسے بچے کے کان میں اذان اوروبا مثلاکرونا وائرس کے زمانے میں دی جانے والی اذان کا جواب  دینے کا حکم نماز والی اذان کی طرح تو نہیں ہے کہ نمازوں کی اذان کا جواب دینے کا حکم بہت تاکیدی ہے ، حتی کہ علمائے کرام کی ایک تعداد نے اسے واجب تک قرار دیا ہے،اگرچہ ہمارے نزدیک راجح و مختار عدمِ وجوب ہے، لیکن دیگر اذانوں کا جواب دینا بھی مستحب اور بہتر ہے،کیونکہ        نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مطلقا اذان سننے والے کوجواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایااور حدیث کے ظاہری الفاظ  میں نمازکی  اذان کے علاوہ دیگر اذانیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔صحیح بخاری میں ہے:”عن أبي سعيد الخدري: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما يقول المؤذن“ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم اذان سنو ،تواس کی مثل جواب دو جو مؤذن کہتا ہے۔

 (صحیح البخاری،کتاب الاذان،جلد01،صفحہ126،مطبوعہ دارطوق النجاۃ)

    علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ  السامی لکھتے  ہیں:’’ھل یجیب    أذان غیر   الصلاۃ    کالأذان   للمولود  ؟    لم أرہ لأئمتنا،والظاھرنعم‘‘ترجمہ:کیانمازکی اذان کے علاوہ دیگراذانوں کابھی جواب دیاجائے گا،جیسے بچہ پیداہوتے وقت کی اذان کاجواب دینا؟(علامی شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں)میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی،مگرظاہریہ ہے کہ دیگراذانوں کاجواب بھی دیاجائے گا۔

(ردالمحتار مع الدرالمختار ،کتاب الصلاۃ،باب الاذان ،جلد02،صفحہ82،مطبوعہ کوئٹہ)

    ردالمحتار کی مذکورہ بالاعبارت(والظاھر نعم)کے تحت اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:”اقول:ولایبعد الاستدلال علیہ باطلاق قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:’’اذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول‘‘ھو الذی ذکرہ بقولہ:وھو ظاھر الحدیث“ترجمہ:میں کہتا ہوں:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فرمان(جب تم مؤذن کی اذان سنو،تواس کی مثل کہوجو مؤذن کہتا ہے) کے اطلاق سے نمازکے علاوہ دیگر اذانوں کے جواب دینے پر استدلال کرنا بعید نہیں ہے اورعلامہ شامی نے جو”والظاھر“ذکر کیا،اس سے مرادحدیث کا ظاہر ہے۔

(جد الممتار،جلد03،صفحہ70، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’اذانِ نمازکے علاوہ اوراذانوں کابھی جواب دیاجائے گا،جیسے بچہ پیداہوتے وقت کی اذان۔‘‘

(بھارشریعت،اذان کابیان،جلد01،صفحہ474، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم