جہری نماز میں سورہ فاتحہ کی کچھ آیات آہستہ پڑھ کر پھر بلند آواز سے پڑھنے سے نماز کا حکم ؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor-11258

تاریخ اجراء: 28جمادی الاولی 1442ھ/13جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر فجر کی نمازمیں امام صاحب نے  بھول کرسورہ فاتحہ کی ایک آیت آہستہ پڑھ لی پھریادآنے پراس آیت کوجہرسے دوبارہ پڑھاتوکیا سجدہ سہولازم ہوگا؟اسی طرح اگرسورہ فاتحہ کی دویاتین آیات آہستہ پڑھنے کے بعددوبارہ سےجہر کےساتھ پڑھ لیں تو سجدہ سہو کرناہوگایانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں فجرکی نمازمیں سورہ فاتحہ کی  ایک آیت بھول کر آہستہ پڑھنے کے بعدجب امام صاحب نے دوبارہ اس آیت کو جہر سے پڑھ لیا،تو سجدہ سہوساقط ہوگیا،یونہی اگرامام سورہ فاتحہ کی دویاتین آیتیں آہستہ پڑھنے کے بعددوبارہ جہرسے ان کااعادہ کرلے،تواس صورت میں بھی سجدہ سہوساقط ہوجائے گا۔

اس مسئلے کی تفصیل درج ذیل ہے :

    امام اگرجہری نماز میں بقدرجوازِ نماز یعنی ایک آیت بھی آہستہ پڑھ لے تو سجدہ سہوواجب ہوجاتاہے، البتہ قراءت کا جہرکے ساتھ اعادہ کرنےسے سجدہ سہوساقط ہوجاتاہے۔مگریہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ جس طرح امام کے لیےجہری نمازمیں جہرکرنا واجب ہے،یونہی امام ہو یامنفرد ہرایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ سورہ فاتحہ کے اکثرحصے کا تکرار نہ کرے ،اس لیے کہ سورہ فاتحہ کے اکثرحصے کاتکرارنہ کرنابھی نماز کاواجب ہےاورجان بوجھ کر واجب ترک کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہوجاتی ہے ۔صورت مسئولہ میں چونکہ امام نے سورہ فاتحہ کااکثرحصہ سراً نہیں پڑھاتھالہذا دوبارہ جہراً پڑھنے سے سورہ فاتحہ کے اکثرحصے کی تکرارنہیں ہوگی اور جہرکے ساتھ قراءت نہ کرنے سے لازم ہونے والاسجدہ سہو، جہرکے ساتھ قراءت کا اعادہ کرنے سےساقط ہوجائے گا۔

    سری نماز میں جہری قراءت کرنے اور جہری نماز میں سری قراءت کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”لو جھر فیما یخافت او خافت فیما یجھر وجب علیہ سجود السھو واختلفوا فی مقدار مایجب بہ السھو منھما قیل یعتبر فی الفصلین بقدر ماتجوز بہ الصلاۃ وھوالاصح“یعنی اگرامام نے سری نماز میں جہری قراءت کی یا جہری نماز میں سری قراءت کی تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا ۔ پھرفقہاء کا اس مقدار کے متعلق اختلاف ہے جس سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے ۔ کہاگیا ہے کہ دونوں صورتوں میں بقدر جواز نماز معتبر ہے اور یہی اصح ہے۔

(الفتاوی الھندیہ،ج1،ص128، مطبوعہ پشاور)

    جہری  نمازمیں سورہ فاتحہ کی بعض آیتیں  آہستہ پڑھنے کے بعد اگر بلندآوازکےساتھ ان کااعادہ کرلیاجائے تو سجدہ سہوساقط ہوجاتاہے جیساکہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت قدس سرہ العزیز جد الممتار میں فرماتے ہیں:”لو خافت ببعض الفاتحۃ یعیدہ جھرا لان تکرار البعض لایوجب السھو ولا الاعادۃ و الاخفاء بالبعض یوجبہ فبالاعادۃ جھرا یزول الثانی و لایلزم الاول“ یعنی:اگر بعض فاتحہ آہستہ قراءت کی تو وہ جہراً اس کا اعادہ کرے کیونکہ بعض کا تکرار سجدہ سہو اور نماز کے اعادہ کو واجب نہیں کرتا اور بعض کوآہستہ پڑھنا سجدہ سہو کو واجب کرتاہے تو جہراً اعادہ کرنے سے دوسرا(نماز کے اعادہ کا وجوب ) زائل ہوجاتا اور پہلا( سجدہ سہوکا وجوب )لازم نہیں رہتا۔

(جد الممتار ،کتاب الصلوۃ ،فصل فی القراء ۃ، ج3،ص237،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

    صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  ارشاد فرماتے ہیں:”امام نے جہری نماز میں بقدر جواز نماز یعنی ایک آیت آہستہ پڑھی یا سرّی میں جہر سے تو سجدۂ سہو واجب ہے ۔“

(بھار شریعت،جلد1،صفحہ714، مکتبہ المدینہ کراچی)

    حضرت علامہ محمدشریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاوی امجدیہ کے حاشیہ میں فر ماتے ہیں:”آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھتارہا، پھر بلندآوازسےپڑھناشروع کیا،تواگرسورہ فاتحہ کااکثر حصہ پڑھ لیا تھا پھر شروع سے پڑھنا شروع کیا تو بھی سجدہ سہو واجب کہ یہ اکثرسورہ فاتحہ کی تکرارہوئی اوریہ موجب سجدہ سہوہےاگردونوں دفعہ بلاقصدسہواہواہوتو۔اوراگربالقصدتکرارکی تواعادہ واجب  اور اگر سورہ فاتحہ کا اکثر حصہ نہیں پڑھا تھا تونہ سجدہ سہوہے نہ اعادہ “

(فتاوی امجدیہ، کتاب الصلوۃ ،جلد01،صفحہ282، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم