صف مکمل ہونے کے بعد اکیلا نمازی جماعت میں کیسے شامل ہو؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6679

تاریخ اجراء:01رجب المرجب1442ھ14فروری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے جماعت میں صف مکمل ہونے کی صورت میں پچھلی صف میں اکیلے کھڑے ہوکر نماز ادا کی،تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟ ہم نے سنا ہے کہ ایسی صورت میں آگے والی صف میں سے کسی نمازی کوکھینچ لینا چاہیے،اکیلے کھڑے نہیں ہو سکتے، اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی و گناہ ہے، البتہ اگر صف دونوں کونوں تک مکمل ہو چکی ہو،تو بہتر یہ ہے کہ پچھلی صف میں تنہا نماز شروع نہ کرے، بلکہ رکوع تک کسی کے آنے کا انتظار کرے، کوئی آ جائے، تو دونوں مل کر صف بنا لیں، اگر کوئی بھی نہ آئے اور رکعت فوت ہونے کا خوف ہو، تو اگلی صف میں قریب سے کسی نمازی کو کھینچ لے اور اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے، لیکن خیال رہے کہ جسے کھینچے وہ اس مسئلے کو جانتا ہواور بہتر ہے کہ اچھے اخلاق والا بھی ہو کہ  کہیں مسئلہ نہ جاننےکے سبب اِس کے کھینچنے کی وجہ سے وہ اپنی نماز ہی توڑ بیٹھے اور غصے کی وجہ سے سمجھنے سے پہلے لڑائی ہی شروع نہ کردے۔ یہاں علماء فرماتے ہیں کہ چونکہ ہمارے زمانے میں دینی مسائل سے ناواقفیت عام ہے، لہذا اس زمانے کے اعتبار سے بہتر یہ ہے کہ اگلے نمازی کو نہ کھینچا جائے، بلکہ تنہا ہی نماز شروع کر دے۔ بہر حال اگر کسی نے بلا عذر بھی صف میں تنہا کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی، تو اس کی نماز ہو  جائے گی، اگرچہ بلا عذر ایسا کرنا گناہ ہے۔

    پہلے اگلی صف مکمل کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اتموا الصف المقدم، ثم الذي يليه، فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر‘‘ترجمہ: (پہلے) اگلی صف  مکمل کرو، پھر اسے جو اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے، پس جو کمی ہو وہ آخری صف میں ہو ۔ ‘‘

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف، جلد 1، صفحہ 107، مطبوعہ لاھور)

    مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:’’عن عطاء في الرجل يدخل المسجد وقد تم الصف قال:ان استطاع ان يدخل في الصف دخل والا اخذ بيد رجل، فاقامه معه ولم يقم وحده‘‘ ترجمہ: حضرت عطاء بن رباح (رضی اللہ عنہ) ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو مسجد میں آئے اور صف پوری ہو چکی ہو کہ اگر اسے (اگلی) صف میں داخل ہونا ، ممکن ہو، توداخل ہو جائے، ورنہ کسی شخص کا ہاتھ پکڑے اور اپنے ساتھ کھڑا کر لے، تنہا کھڑا نہ ہو ۔ ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوۃ التطوع ۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ 34، مطبوعہ عرب شریف)

    بدائع الصنائع میں ہے:’’وينبغي اذا لم يجد فرجة ان ينتظر من يدخل المسجد ليصطف معه خلف الصف، فان لم يجد احدا وخاف فوت الركعة جذب من الصف الى نفسه من يعرف منه علما وحسن الخلق لكي لا يغضب عليه، فان لم يجد يقف حينئذ خلف الصف بحذاء الامام‘‘ ترجمہ:مقتدی جب اگلی صف میں جگہ نہ پائے، تو اسے چاہیے کہ کسی کے مسجد میں داخل ہونے کا انتظار کرے تاکہ اس کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو سکے، پس اگر کوئی بھی نہ ملے اور رکعت کے فوت ہونے کا خوف ہو، تو اگلی صف میں سے کسی ایسے شخص کو کھینچ لے جو مسئلہ جاننے والا اور خوش اخلاق ہو، تا کہ وہ دوسرا شخص کھینچنے والے پر غصہ نہ کرے، پس اگر ایسا شخص بھی نہ پائے، تو اس صورت میں امام کے پیچھے تنہا کھڑا ہو جائے ۔ ‘‘

(بدائع الصنائع، کتاب الصلوة، باب بیان ما یستحب فی الصلوة وما یکرہ، جلد 1، صفحہ 218 ، مطبوعہ بیروت )

    مجمع الانہر میں ہے:’’لکن الاولی فی زماننا القیام وحدہ لغلبۃ الجھل، فانہ اذا جذب احداً ربما افسد صلاتہ‘‘ ترجمہ: لیکن ہمارے زمانے میں جہالت عام ہونے کی وجہ سے اولیٰ یہ ہے کہ نمازی اکیلا کھڑا ہو جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کو کھینچے تو وہ اپنی نماز فاسد کر دے ۔‘‘

(مجمع الانھر، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 188، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی فقیہ ملت میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ہے: ’’اگر پہلی صف پُر (مکمل )ہو چکی ہے، تو آنے والا شخص دوسرے کے آنے کا انتظار کرے، اگر کوئی نہیں آیا اور امام رکوع میں چلا گیا، تو وہ صفِ اول سے جو اس مسئلہ کا جانکار ہو، کھینچ کر دوسری صف میں اپنے ساتھ ملا کر کھڑا ہو جائے اور اگر ایسا شخص نہیں جو اس مسئلہ کا جانکار ہو، تو وہ اکیلے امام کی سیدھ میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اگر بلا عذر بھی اکیلے کھڑا ہو جائے، تو بھی نماز ہو جائے گی ۔ ‘‘

 (فتاوی فقیہ ملت، جلد 1، صفحہ 157، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم