نماز میں درست محل میں لقمہ دینا اور لینا؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-4155

تاریخ اجراء:21 محرم الحرام 1442ھ/10ستمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے کہ ایک  امام نماز ِ عشاء کی تیسری رکعت مکمل کرنےکے بعدچوتھی کے لیے کھڑے ہو نے کے بجائے بھولے سے  بیٹھ گیا ، پھرایک مقتدی نے تین تسبیح کی مقدار سے پہلےلقمہ دیااورامام اس کا لقمہ لےکرفورا کھڑا ہو گیا اورنمازکے آخر میں سجدہ سہو  کیا  ، تو اس صور ت میں نماز   کا کیا حکم ہے ، ہوگئی یا نہیں؟

    نوٹ:  سائل نے وضاحت کی ہے کہ  اس جماعت  میں کوئی مقتدی  مسبوق نہیں  تھا۔سب  پہلی رکعت  سے شامل تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قوانین  شرعیہ کے مطابق غلطی جب ایسی ہو ، جس سے واجب ترک  ہوکر نماز مکروہ تحریمی ہو ، تو اس کا بتانا  ہر مقتدی پر واجب کفایہ ہوتاہے اورصورت  مستفسرہ میں بھی امام جب چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہو نے کے بجائے بھولے سےبیٹھا  ، تو تین تسبیح کی مقدار تاخیرہو جانے سے واجب ترک ہو جاتا ، کہ  نماز میں  جو پہلی اورچاررکعت والی میں تیسری  رکعت  میں نہ بیٹھنا واجب  ہے ، اس سے مرادتین تسبیح  کی مقدار  ہے  اگرچہ  تین تسبیح  سے کم بھی  بلا عذر نہیں بیٹھنا  چاہیے ، لیکن ترکِ واجب  تین تسبیح کی مقداربیٹھنے پر ہی متحقق ہوگا ، اس سے کم پر نہیں ، لہٰذاہر مقتدی پر  بتانا واجب تھا اورجب ایک مقتدی نے حکمِ شرع بجالاتے ہوئے تین تسبیح کی مقدار سے پہلے لقمہ دے دیا اور امام اس کا لقمہ لے کرفورا کھڑا ہوگیا ، توواجب  ترک نہ ہوا،لہٰذا سجدہ سہو کی ضرورت نہیں تھی۔امام نے جو سجدہ سہو کیا بلا سبب واقع ہوا،مگر اس کے باوجود صورت مستفسرہ میں امام اور سب مقتدیوں کی نماز درست ہوگئی ، کیونکہ  بلا سبب سجدہ سہو اگرچہ ممنوع ہے،مگر اس سے امام اور مدرک یعنی  جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت نہ نکلی ہو،ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی ، البتہ مسبوق یعنی جس کی ایک  یا زائد رکعات نکل گئی ہوں،وہ  اگر  بلاسبب سجدہ سہو میں امام کی  متابعت کرے   ، تو  بعد میں اس  پر بلا سبب سجدہ سہوظاہر ہو نے پراس کی نماز فاسد ہوجائے گی،دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا جائے گا،البتہ اگر اسے علم ہی نہ ہوا ، تو حکمِ فساد نہ ہوگا اور امام کی  حالت کو  صلاح  ودرستی پر محمول کرتے  ہوئے اس کی نماز کو بھی درست قرار دیا جائے گا۔

    لقمہ سے متعلق سیدی  اعلی حضرت  الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فر ماتے ہیں:’’ اور اگر غلطی ایسی ہے  جس سے واجب  ترک ہو کر نماز مکروہ تحریمی ہو تو اس کا بتانا ہر مقتدی پر  واجب کفایہ ہے  ۔ اگر ایک بتادے اور اس کے بتانے سے کاروائی ہو جائے سب پر سے  واجب اتر جائے گا  ورنہ سب گنہگار رہیں گے ۔ فان قیل لہ  مصلح آخر وھو سجود السهو  فلا یجب الفتح عینا قلت بلی  فان ترک الواجب  معصیۃ  وان لم یاثم بالسھو ودفع المعصیۃ واجب  ولا یجوز التقریر علیھا بناء علی جابر  یجبرھا کمالا یخفی۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں اصلاح کی دوسری صورت ،بصورت سجدہ سہو  موجود ہے تو یہاں لقمہ دینا واجب نہ ہو گا۔ قلت :کیوں نہیں،کیونکہ ترک واجب گناہ ہے  اگرچہ امام سہو سے   گنہگار نہیں ہو تااور گناہ  سے بچنا ضروری ہے تو معصیت پر اثبات اس لیے کہ  کسی دوسرے سے اس کاا زالہ کر لیا جائے گا ، جائز نہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔(ت)۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج7،ص280 تا281،رضا فاؤنڈیشن،لاهور) 

    در مختار میں نماز کے واجبات کے بیان  میں ہے:’’ وترک قعود قبل ثانیۃ او رابعۃ ‘‘اور دوسری یا چوتھی رکعت سے  پہلے  قعدہ نہ کرنا ۔

(در مختار مع رد المحتار،ج2،ص201،مطبوعہ کوئٹہ)

     رد المحتا میں ہے:’’وکذا القعدۃ فی آخر الرکعۃ الاولی او الثالثۃ فیجب ترکھا ،ویلزم عن فعلھا  ایضا تاخیر القیام  الی الثانیۃ او الرابعۃ  عن محلہ ،وھذا اذا  کانت القعدۃ طویلۃ،اما الجلسۃ الخفیفۃ  التی استحبھا الشافعی  فترکھا غیر واجب عندنا  بل ھو الافضل  کما سیاتی ‘‘اور اسی طرح پہلی یاتیسری رکعت کے آخر میں قعدہ  تو اس کاترک کرنا واجب ہےاوراس  کےفعل(قعدہ کرنے) سےدوسری رکعت یاچوتھی رکعت  کی طرف قیام کو اپنے محل سے موخر کرنا بھی  لازم آئے گا اور یہ تب ہے  جب قعدہ طویل ہو  بہر حال  جلسہ خفیفہ(تھوڑا بیٹھنا) جس کو امام شافعی نے مستحب قرار دیا ہے تو اس کاترک ہمارے نزدیک  واجب   نہیں  بلکہ وہ(ترک کرنا)افضل ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔

 (رد المحتار،ج2،ص201،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں نمازکے واجبات  کےبیان میں ہے: ’’ دوسری سے پہلے قعدہ نہ کرنا اور چار رکعت والی  میں تیسری پر قعدہ  نہ ہونا۔ دو فرض یا دو واجب  یا واجب فر ض کے درمیان  تین تسبیح کی قدر  وقفہ نہ ہونا۔ملخصا‘‘

(بهار شریعت،ج1،ص519،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    سجدہ بلا سبب کی صورت میں امام اور  مقتدیوں کی نماز  کے حکم سے  متعلق سیدی  اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :’’امام ومقتدیان سابق کی نماز ہو گئی۔  اگر سجدہ سہو  میں مسبوق  اتباع امام کرے ، بعد کو معلوم ہو کہ  یہ سجدہ  بے سبب تھا  اس کی نماز فاسد ہو جائے گی کہ ظاہرہوا کہ محل انفراد میں اقتداء کیا تھا،ہاں اگر معلوم نہ ہو تو اس کے لیے  حکم فساد نہیں  کہ وہ حال امام کو  صلاح و صواب پر محمول کرنا   ہی چاہیے۔ملخصا۔‘‘

                                                                      (فتاوی رضویہ،ج8،ص185،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم