شرعی سفر کی حد گھر سے شروع ہو گی یا شہر سے؟

مجیب:مولانا ساجد  صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Mad-2061B

تاریخ اجراء:30رجب المرجب1439ھ/17اپریل2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی مسافر کے لیے جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے کہ 92 کلومیٹر یا زیادہ کا سفر ہو، تو وہ مسافر کہلائے گا۔ یہ فاصلہ سفر کرنے والے کے گھر سے لے کر جس گھر جانا ہے ، ان دونوں کے درمیان کا ہے یا دونوں شہروں کی حدود کے درمیان کا ہے ؟ ہر صورت میں اس کا حوالہ کیا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی مسافر کہلانے کے لیے جو فاصلہ درکار ہوتا ہے یہ دوشہروں کی حدود کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے،نہ کہ اپنے گھر سے دوسرے کے گھر تک کا۔

    تفصیل کچھ یوں ہے کہ آدمی  جب تک اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے نہیں نکلتا اس وقت تک اس کا سفر ہی شروع نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ آدمی اپنے گھر سے شہر کی آخری  حدتک جو فاصلہ ہے اس دوران وہ نماز قصر  نہیں کر سکتا،اگرچہ سینکڑوں کلو میٹر  دور  جانے کا ارادہ ہو۔ یونہی جس شہر یا بستی میں جاناہوتا ہے، اس  کی آبادی جہاں سے شروع ہوتی ہے اعتبار اسی جگہ کا کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر میں سفر کرتے ہوئے آیا اور یہاں اس نے 15دن سے زیادہ رہنا ہے ،تو اس شہر کی آبادی میں داخل ہوتے ہی  قصر نماز کا حکم ختم ہوجائے گا اور اسے پوری نماز پڑھنی ہوگی، اگرچہ وہ شہر کے اندر اس گھر میں نہ پہنچا ہو جس میں اس نے قیام کرنا تھا ۔ یہی مسئلہ اس وقت بھی ہوتا ہے کہ جب آدمی سفر سے واپس اپنے شہر آتا ہے، تو شہر کی آبادی میں داخل ہوتے ہی قصر کا حکم ختم ہو جاتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچا ہو۔ ان مسائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سفر میں جو فاصلہ لیا جاتا ہے،یہ دومختلف شہر وں یابستیوں کی حدود کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہےاور ان مسائل میں پورا شہر یا پورا گاؤں، اگرچہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ایک ہی جگہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ جزئیات درج ذیل ہیں:

    حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مدینہ شریف سے سفرِحج شروع کیا، تو ظہر کی نماز مدینہ شریف کی حدود میں چار رکعت ہی ادا کی اور پھر مدینہ شریف کی حدود سے نکلنے کے بعد  ذوالحلیفہ  کے مقام پر عصر کی نماز قصر ادا کی۔چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرمایا:” أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلى الظهر بالمدينة أربعا، وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين “ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینے میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذو الحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں ادا کیں۔

(بخاری، کتاب الحج، جلد2، صفحہ138، حدیث 1547، دار طوق النجاۃ)

    علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ” إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر “ترجمہ: مسافر نے  دو جگہوں پر 15 دن ٹھہرنے کے نیت کی،تو اگر وہ ایک ہی شہر یا ایک ہی گاؤں کی دو جگہیں ہیں ،تو یہ شخص مقیم ہو جائے گا، کیونکہ یہ دونوں جگہیں حکماً ایک ہی ہیں ۔ کیا نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہوئے جائے تو وہ قصر نہیں کرتا۔

 (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ98، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    بنایہ میں ہے : ” وفي  المفيد، و التحفة: المقيم إذا نوى السفر ومشى أو ركب لا يصير مسافرا ما لم يخرج عن عمران المصر “ترجمہ: مفید اور تحفہ میں ہے: مقیم شخص جب سفر کی نیت کرے یا چلنا شروع کر دے یا سوار ہو جائے تو وہ مسافر نہیں ہو گا جب تک شہر کی آبادی سے نہ نکل جائے۔

 (بنایہ، جلد3، صفحہ15، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    ہدایہ میں ہے : ”(وإذا فارق المسافر بيوت المصر صلى ركعتين) ؛ لأن الإقامة تتعلق بدخولها فيتعلق السفر بالخروج عنها. وفيه الأثر عن علي  رضي اللہ عنه ، لو جاوزنا هذا الخص لقصرنا “ترجمہ: اور مسافر جب شہر کے گھروں سے نکل جائے، تو وہ دو رکعت پڑھے گا، کیونکہ اقامت کا تعلق شہر کے گھروں میں داخل ہونے سے ہوتا ہے ،تو سفر کا تعلق ان گھروں سے نکل جانے سے ہوگا اور اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک اثر وارد ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر ہم اس خص(بانس سے بنے ہوئے گھر)سے آگے نکل جائیں، تو ہم قصر کریں گے۔

    علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوری روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے یوں لکھی ہے : ” روى ابن أبي شيبة عن علی  رضي اللہ  عنه  أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين. “ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ بصرہ سے نکلے اور ظہر کی نماز چار رکعت ادا کی پھر فرمایا :اگر ہم اس خص(بانس سے بنائے ہوئے  گھر)سے آگے نکل جائیں تو ہم قصر کریں گے۔

  (فتح القدیر، جلد2، صفحہ33، دار الفکر، بیروت)

    امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا: ” زید اپنے وطن سے ستر یا اسی کو س کے فاصلے پر کسی شہر میں ملازم ہے وہاں سے سال دو سال کے بعد آٹھ دس روز کے واسطے اپنے مکان پر آیا اور پھر چلا گیا اس آمد ورفت میں اس کو نماز قصر پڑھنا چاہئے یا نہیں ۔ “

    اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں:”جب وہاں سے بقصد وطن چلے اور وہاں کی آبادی سے باہر نکل آئے اس وقت سے جب تک اپنے شہر کی آبادی میں داخل نہ ہو قصر کرے گا، جب اپنے وطن کی آبادی میں آگیا،قصر جاتا رہا، جب تک یہاں رہے گا ،اگر چہ ایک ہی ساعت ، قصر نہ کرسکے گا کہ وطن میں کچھ پندرہ روز ٹھہر نے کی نیت ضرور نہیں، پھر جب وطن سے اُس شہر کے قصد پرچلا اور وطن کی آبادی سے باہر نکل گیا اس وقت سے قصر واجب ہوگیا، راستے بھر تو قصر کرے گا ہی اور اگر اُس شہر میں پہنچ کر اس بار پندرہ روز یا زیادہ قیام کا ارادہ نہیں، بلکہ پندرہ دن سے کم میں واپس آنے یا وہاں سےاور کہیں جانے کا قصد ہے،تووہاں جب تک ٹھہرے گا اس قیام میں بھی قصر ہی کرے گا اور اگر وہاں اقامت کا ارادہ ہے ،تو صرف راستہ بھر قصر کرے، جب اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگا قصر جاتا رہے گا۔ وﷲ تعالیٰ اعلم “

(فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ258،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم