سسرال میں نمازمکمل یا قصر پڑھنی ہوگی؟

مجیب:مولانا سرفراز صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-4203

تاریخ اجراء:08صفر المظفر1442ھ/26ستمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ وطن اصلی کی صورتوں میں سے ایک صورت  بہار شریعت وغیرہ  میں یہ بھی پڑھی تھی کہ آدمی جہاں سے شادی کر لے وہ جگہ بھی اس کی وطن اصلی ہوجاتی ہے۔یہ مسئلہ پڑھا ہوا توتھا لیکن اس کی طرف کبھی توجہ نہیں گئی اور اب جب غور کیا ہے تو اس سے ظاہراً جو معنی سمجھ آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ آدمی کا سسرال بھی اس کے لیے وطن اصلی ہوگا اور اسے وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی۔اگر اس مسئلہ کا  یہی مفہوم ہے، تو میرے خیال میں  اس کی طرف عام عوام تو کیا بڑے بڑے علماء کی بھی توجہ نہیں ہوگی کہ کسی کو بھی اس پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔برائے کرم اس کی وضاحت فرمادیں۔

     میں نے ڈیرہ غازی خان سے شادی کی ہے اور بیوی بچوں سمیت میری مستقل  رہائش ملتان کی ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ میں جب ڈیرہ غازی خان جاؤں گا قصر کروں گا یا پوری نماز پڑھوں گا؟ابھی تک میرا عمل یہ رہا ہے کہ میں وہاں قصر کرتا رہاں ہوں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آدمی جہاں سے شادی کر لے  تواگرچہ مفتیٰ بہ قول کے مطابق اس جگہ کے وطن اصلی ہونے کے لئے  شوہر کی وہاں مستقل سکونت ہونا ضروری نہیں جیسا کہ یہ تفصیل نیچے تنبیہ میں آرہی ہے،مگر یہ ضروری ہے کہ بیوی کی  وہیں مستقل رہائش ہو اور یہ سمجھا جائے کہ شوہر کے اہل خانہ یہاں رہتے ہیں۔یہ ہرگز مطلب نہیں کہ چاہے بیوی رخصت ہو کر شوہر کے ساتھ دوسری جگہ آ گئی،تب بھی وہ  جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہو۔شادی کی جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہونے کی صورت پاک و ہند میں بہت ہی کم ہے کہ  اولا ہمارے ہاں پہلی بیوی کے موجود ہونے کی صورت میں  دوسری شادی  کا رواج بہت کم ہے اور اگرکوئی دوسری شادی کرتا بھی ہے ، تو عموماً دونوں کو ایک ساتھ یا کم از کم ایک شہر  میں  رکھتا ہے،لہذا ہمارے ہاں شادی کی جگہ شوہر کے لیے وطن اصلی ہونے والی صورت کا پایا جانا، نادر ہے۔البتہ عرب میں یہ صورت بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ عربی لوگ  اکثر ایک سے زائد دو دو،تین تین، چار چار شادیاں کرتے ہیں اور بیویوں کو ایک جگہ رکھنے کے بجائے مختلف شہروں میں علیحدہ علیحدہ اپنے ذاتی یا کرائے کے مکانات میں رکھتے ہیں،بیویوں کی وہیں مستقل سکونت ہوتی ہے، وہیں ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں،شوہر کبھی مہینہ یا اس  سے کم و بیش  ایک کے پاس پھر اسی طرح دوسری کے پاس رہتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب شوہر کے گھر ہیں،اس طرح ایسی تمام جگہیں شوہر  کے لئے وطن اصلی قرار پاتی ہیں۔

    شادی کی جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہونے کے لئے بیوی کی وہاں مستقل سکونت ضروری ہونے پر پہلی دلیل وہ جزئیہ ہے ، جس میں فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا کہ ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں اور دو مختلف جگہوں میں رہتی ہوں تو وہ دونوں جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہیں،ان میں سے جس جگہ بھی وہ جائے گا،مقیم کہلائے گا،البتہ جب کسی بیوی کا انتقال ہوگیا  تو چاہے وہاں اسباب و گھر موجود ہو ،مفتیٰ بہ قول کے مطابق بیوی کے انتقال کر جانے کی صورت میں  اب وہ جگہ اس کے لئے وطن اصلی نہیں رہے گی ۔اس مسئلہ میں واضح طور پر فقہاء نے بیویوں کی سکونت کو شوہر کے وطن اصلی ہونے کی بنیاد بنایا ہے،اسی وجہ سے  ایک بیوی کے انتقال ہوجانے پر اس جگہ کے شوہر کے لئے وطن اصلی نہ رہنے کا حکم بیان فرمایا،لہذا جہاں سے شادی ہوتے ہی بیوی رخصت ہوکر شوہر کے پاس آ جائے گی تو وہ جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہرگز نہیں ہوگی۔

    رد المحتار میں شرح منیہ کے حوالہ سے ہے:’’ لو کان لہ اھل ببلدتین فایتھما دخلھا صار مقیما فان ماتت زوجتہ فی  احداھما  و بقی لہ فیھا دور و عقار قیل لا یبقی وطناً لہ اذ المعتبر الاھل دون الدار کما لو تاھل ببلدۃ و استقرت سکناً لہ و لیس لہ فیھا دار،و قیل تبقی اھ۔‘‘ اگراس کی بیویاں دوشہروں میں  ہوں توان میں سے جس شہرمیں بھی جائےگامقیم ہوجائے گا،پس ان میں سےایک شہرمیں اس کی بیوی انتقال کرجائےاوراس کاگھراورجائیداداس شہرمیں باقی ہو،کہاگیاوہ شہراس کےحق میں وطن اصلی  نہ رہےگاکیونکہ اعتباربیوی کےہونےکاتھا،گھرکانہیں،جیساکہ اگرکوئی شخص کسی شہرمیں نکاح کرلےاوراس مقام کوجائےسکونت بنالےحالانکہ اس شہرمیں اس کاگھرنہ ہو( تب بھی وہ جگہ اس کی وطن اصلی ہوگی)۔اورکہاگیاوطن اصلی باقی رہےگا(یعنی بیوی کےانتقال کےبعداگراس جگہ گھراورجائیداد ہوتووہ مقام وطن اصلی رہےگا)۔

                      ( رد المحتار،جلد2،صفحہ739،مطبوعہ کوئٹہ)

    وطن اصلی ہونے میں مدار مستقل سکونت پر ہے،اسباب وگھر پر نہیں،سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے یہ مسئلہ تفصیل سے بیان فرمانے کے بعد موت زوجہ والے مسئلہ کو اسی پر قیاس کرنے کا فرمایا ۔ یعنی دو بیویوں  میں سے ایک بیوی کا انتقال ہوگیا تو چاہے گھر واسباب وہاں موجود ہو، جب شوہر کی مستقل سکونت وہاں نہیں تو وہ جگہ اس کے لئے وطن اصلی نہیں رہے گی۔چنانچہ فرماتے ہیں:’’قولہ:(لو نقل اھلہ و متاعہ ولہ دور فی البلد لا تبقی وطناً لہ و قیل تبقی)والیہ  اشار محمد  فی الکتاب کذا فی الزاھدی،ھندیہ،،اقول یظھر للعبد الضعیف ان  نقل الاھل  والمتاع  یکون علی وجھین  احدھما  ان ینقل  علی عزم  ترک التوطن  ھاھنا ،والآخر:لا علی ذلک ،فعلی الاول  لا یبقی الوطن  وطنا  وان بقی لہ  فیہ دور  وعقار ،وعلی الثانی  یبقی  فلیکن المحمل  للقولین  وبمثل ھذا  یجری الکلام  فی موت الزوجۃ ،فافھم ‘‘ مصنف علیہ الرحمہ کاقول(اگرکوئی شخص اپنےاہل وسامان کومنتقل کردےاوراس شہرمیں اس کاگھر ہو،وہ شہراس کےحق میں وطن اصلی نہ رہےگااورکہاگیا وطن اصلی رہےگا)اسی طرف امام محمد علیہ الرحمۃ نےکتاب میں اشارہ کیا،اسی طرح زاہدی میں ہے،ہندیہ۔میں کہتاہوں بندہ ناچیز پرآشکارہواکہ اہل اورسامان کونقل کرنادوصورتوں پرہےایک تویہ کہ اس شہرسےرہائش ختم کرنےکے ارادہ سےاہل وسامان نقل کیاجائے،دوسری صورت یہ کہ رہائش ختم کرنےکاارادہ نہ ہو،پس پہلی صورت میں وہ شہر وطن اصلی نہ رہےگااگرچہ وہاں گھراورجائیدادہو،اوردوسری صورت میں وطن اصلی رہےگا،لہذاچاہیےکہ ان دوقولوں کامحمل یہ ہی ہو،اسی کی مثل کلام زوجہ کے انتقال کی صورت میں  جاری ہوگا،لہذاسے سمجھ لو۔

      (جد  الممتار،جلد3صفحہ572،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    پہلی دلیل کے جزئیات سے دوسری دلیل بھی ماخوذ ہے،وہ اس طرح کہ اوپر مذکور تفصیل کے مطابق جس بیوی کا انتقال ہوگیا ،وہاں چاہے اسباب و گھر موجود ہو تب بھی مفتیٰ بہ قول کے مطابق وہ جگہ آدمی کے لئے وطن اصلی نہ رہی اور دوسرا قول یہ مذکور ہوا کہ اگر اسباب و گھر اس جگہ بدستور موجود ہوں تو وطن اصلی ہونا برقرار رہے گا،اس سےمعلوم ہوا کہ شادی کے بعد عورت اگر رخصت ہو کر شوہر کے ساتھ آجائے اور وہاں اسباب و گھر بھی موجود نہ ہو تو دونوں قولوں کے مطابق بالاتفاق وطن اصلی نہ ہونے کا حکم بیان کیا جائے گا، صورت مستفسرہ میں بھی یہی صورت حال ہے کہ بیوی رخصت ہو کر آچکی اور وہاں اس کا گھر و اسباب بھی موجود نہیں ،لہذا دونوں قولوں کے مطابق وہ جگہ وطن اصلی نہیں ہوگی۔

    تیسری دلیل : یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی شادی مکہ شریف سے بھی تھی لیکن اہل و عیال کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے آئے تو مکہ شریف آپ کا وطن اصلی نہ رہا جیسا کہ حجۃ الوداع  کے موقع پر آپ  علیہ الصلوۃ والسلام نے قصر نماز ادا فرمائی ۔

    محیط برہانی میں ہے:’’أن مكة كانت وطناً أصلياً لرسول الله عليه السلام لما هاجر منها إلى المدينة بأهله وعياله وتوطن(بھا)،(ف)انتقض وطنه بمكة حتى قال عام حجة الوداع: «أتموا صلاتكم يا أهل مكة، فإنا قوم سفر۔‘‘بیشک مکہ حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کاوطن اصلی تھاپھرجب حضورعلیہ الصلاۃ و السلام نےاپنے اہل وعیال کےساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اوراسے اپنی جائے سکونت بنالیاتومکہ حضورعلیہ الصلاۃ و السلام کاوطن اصلی نہ رہا،یہاں تک کہ حجۃ الوداع کےسال حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:اے مکہ کے رہنے والو اپنی نماز مکمل کروکیونکہ ہم لوگ مسافرہیں۔

 (المحیط البرھانی،جلد2،صفحہ401،مطبوعہ  کراچی)

    چوتھی دلیل : حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل ہے کہ مکہ میں مستقل رہائش نہ ہونے کے باوجود مکہ سے شادی کرنے کی وجہ سے آپ پوری نماز پڑھتے تھے،مگر روایات میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ  مکہ  میں آپ نے  جس عورت سے شادی کی تھی، ان کی رہائش مکہ میں ہی تھی۔

    کفایہ میں  ہے:’’ولو کان لہ  اھل ببلدۃ فاستحدث  (فی)بلدۃ اخری  اھلا کان کل واحد منھما  وطنا  اصلیا لہ  و روی  انہ کان  لعثمان  رضی اللہ  عنہ   اھل بمکۃ واھل بالمدینۃ وکان یتم الصلوۃ  بھما  جمیعا ۔‘‘اوراگرکسی شخص کی ایک شہرمیں بیوی ہوپس وہ دوسرے شہرمیں بھی  نکاح کرلےتودونوں شہراس کےحق میں وطن اصلی ہوں گے اورروایت کیاگیاکہ حضرت عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  کی ایک بیوی مکہ میں اور ایک مدینہ میں تھی اورآپ رضی اللہ عنہ دونوں جگہ نماز مکمل پڑھتےتھے۔                                                                      

(کفایہ،جلد2،صفحہ17،مطبوعہ  کوئٹہ)

    حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’تیسرے یہ کہ حضرت  عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے  مکہ معظمہ میں  زمین خرید لی وہاں مکان بنوا لیا  وہاں اپنی ایک بیوی کو رکھا  اس  لیے  مکہ معظمہ  آپ کا ایک قسم کا وطن بن گیا  اور اپنے وطن میں  اگر کوئی  ایک  دن کے لیے بھی جائے  تو مقیم ہو گا  اور قصر نہ پڑھے گا پوری نماز پڑھے گا۔‘‘        

                                                       (جاء الحق،صفحہ489،مطبوعہ قادری پبلشرز،لاھور)

    پانچویں دلیل یہ ہے کہ عورت کے متعلق فقہاء نے یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے کہ شادی کے بعد جب رخصت ہو کر شوہر کے پاس آجائے گی اور وہیں مستقل رہنے کا ارادہ ہو تو میکا اس کا وطن اصلی نہیں رہے گا۔جب رہائش ختم ہوجانے کی وجہ سے میکا عورت کے لئے وطن اصلی نہ رہا توشوہر کے لئے بدرجہ اولی نہیں ہوگا کہ میکے سے اصل تعلق عورت کا ہے،جب رخصتی ہوجانے اور رہائش ختم ہونے کی وجہ سے وہ جگہ اس کے لئے بھی وطن اصلی نہ رہی تو شوہر کے لئے کیسے ہو سکتی ہے؟؟لہذا بالکل عجیب ہوگا کہ یوں مسئلہ بیان کیا جائے کہ عورت جب رخصت ہو کر آچکی تو میکا اس کےلئے تو وطن اصلی  نہ رہا،مگر مرد کے لئے تب بھی وطن اصلی ہے۔

    بہار شریعت میں ہے:’’عورت بیاہ کر سسرال گئی اور یہیں رہنے سہنے لگے تو میکا اس کےلئے وطن اصلی نہ رہا یعنی اگر سسرال تین منزل پر ہے،وہاں سے میکے آئی اور پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کی تو قصر پڑھے اور اگر میکے رہنا نہیں چھوڑا بلکہ سسرال عارضی طور پر گئی تو میکے آتے ہی سفر ختم ہوگیا نماز پوری پڑھے۔‘‘

                     (بھار شریعت،جلد1،صفحہ752،مطبوعہ مکتبہ المدینہ ،کراچی)

    آدمی کی شادی کے جگہ کے وطن اصلی ہونے کے لئے ،اس جگہ بیوی کی مستقل سکونت ضروری ہونے پر یہ پانچ  دلیلیں ہیں، تتبع و تلاش سے مزید دلائل بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں،لہذا بہار شریعت وغیرہ دیگر کتب فقہ میں موجود مسئلہ کہ "آدمی کی شادی کی جگہ اس کے لئے وطن اصلی ہے"مطلق نہیں ہے، بلکہ بیوی کی سکونت کی قید کے ساتھ مقید ہے۔آجکل چونکہ شادی ہوجانے پر بیوی رخصت ہو  کر شوہر کے گھر آجاتی ہے،لہذا وہ جگہ  شوہر کے گھر سے اگر 92 کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر ہو تو پندرہ دن سے کم کے لئے جانے کی صورت میں شوہر و بیوی دونوں کو قصر کرنا ہوگی۔

    مذکورہ بالا تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ شادی کے بعد جب آپ بیوی بچوں سمیت ملتان رہائش پذیر ہیں،شادی کے بعد ڈیری غازی خان سے  آپ کی بیوی کی رہائش ختم ہوگئی، تو ڈیرہ غازی خان آپ دونوں کے لئے وطن اصلی نہیں ہے،لہذا وہاں جب آپ پندرہ دن سے کم کے لیے جائیں گے ، تو قصر  نماز ادا کریں گے۔

    تنبیہ!اوپر فتوے میں یہ ذکر کیا گیا کہ شادی کی جگہ کے شوہر کے لئے وطن اصلی ہونے کے لئے شوہر کی وہاں سکونت ضروری نہیں،فقہ حنفی کے مطابق ایک قول تو یہی ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ وہاں شوہر کی بھی مستقل سکونت ہونا ضروری ہے،ورنہ وہ جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی نہیں ہوگی۔علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ نے اظہار فرمایا کہ دونوں قولوں میں ترجیح کا اختلاف ہے،لہذا دونوں قول قوی ہیں،البتہ اصول رسم الافتاء کے مطابق پہلا قول مفتی بہ اورراجح تر  ہے کیونکہ علاماتِ فتوی میں سے اس کی طرف"اوجہ" کے الفاظ موجود ہیں،جبکہ دوسرے قول کی طرف کوئی علامت فتوی موجود نہیں۔نیز بشمول علامہ قاضی خان اور سیدی اعلی حضرت علیہما الرحمۃ،کئی فقہاء نے مطلقاً شادی  کی جگہ کو وطن اصلی شمار فرمایا،شوہر کی وہاں سکونت کی قید نہیں لگائی اور اسی پر اقتصار بھی  فرمایا اور کسی قول پر  اقتصار دلیل اعتماد و ترجیح ہے اور علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح دوسروں کی ترجیح پر فوقیت رکھتی ہے۔یہی قول حدیث پاک سے مؤید ہے،اسی کو بہارشریعت میں بھی  اختیار فرمایا۔

    تنویر الابصار و درمختار میں ہے:’’(الوطن الاصلی)ھو موطن ولادتہ او تاھلہ او توطنہ۔‘‘وطن اصلی وہ اس کی پیدائش کی جگہ یا اہل بنانے کی جگہ یا وطن بنانے کی جگہ ہے۔

 (تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار،جلد2،صفحہ739،مطبوعہ  کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(او تاھلہ)ای تزوجہ قال فی شرح المنیۃ:ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الاقامۃ بہ فقیل لا یصیر مقیماً و قیل یصیر مقیماً وھو الاوجہ ولو کان لہ اھل ببلدتین فایتھما دخلھا صار مقیما۔‘‘ مصنف علیہ الرحمۃ کاقول(اھل بنانے کی جگہ)یعنی اس کی شادی کی جگہ،شرح منیہ میں فرمایا:اگرمسافرنےکسی شہرمیں نکاح کرلیااوروہاں اقامت کی نیت نہ کی توکہاگیاکہ وہ مقیم نہ   ہوگا،اورکہاگیا کہ مقیم ہوجائےگا،اوریہ ہی اوجہ ہے،اوراگراس کی بیویاں دوشہروں میں  ہوں توان میں سے جس شہرمیں بھی  وہ جائےگامقیم ہوجائے گا۔

 ( رد المحتار،جلد2،صفحہ739،مطبوعہ کوئٹہ)

    در مختار میں ہے:’’تزوج المسافر ببلد  صار مقیما علی الاوجہ۔‘‘مسافرنےکسی شہرمیں نکاح کرلیاتواوجہ قول کےمطابق مقیم ہوجائےگا۔

 (درمختارمع رد المحتار،جلد2،صفحہ745،مطبوعہ  کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(صار مقیما علی الاوجہ)ای :بنفس التزوج  وان لم یتخذہ  وطنا  او لم ینو الاقامۃ خمسۃ  عشر یوما ،واما المسافرۃ  فانھا تصیر  مقیمۃ  بنفس التزوج  اتفاقا  کما فی القہستانی ح۔ وحکی الزیلعی  ھذا الاوجہ  بقیل:فظاہرہ ترجیح  المقابل  فقد اختلف  الترجیح ط‘‘مصنف علیہ الرحمۃکاقول:(اوجہ قول کےمطابق مقیم ہوجائے گا)یعنی صرف نکاح کرنےسےہی اگرچہ اس نے اس شہرکوجائے سکونت نہ بنایاہویاپندرہ دن ٹھہرنےکی نیت نہ کی ہو،اوررہی مسافرعورت پس وہ بالاتفاق صرف نکاح سےہی مقیم ہوجائےگی،جیساکہ قہستانی میں ہے۔اور امام زیلعی علیہ الرحمہ نے اس اوجہ قول کو قیل کے ساتھ حکایت کیا ،جس کا ظاہر اس کے مقابل قول کو ترجیح دینا ہے،لہذا ترجیح مختلف ہوگئی ۔ طحطاوی ۔

              (رد المحتار،جلد2،صفحہ745،مطبوعہ  کوئٹہ)

    حاشیۃالطحطاوی میں ہے:‘‘قولہ:( صار  مقیما  علی الاوجہ)لقولہ  علیہ الصلوۃ والسلام من تزوج  من بلدۃ  فھو منھا  بحر‘‘ مصنف علیہ الرحمۃ کاقول:(اوجہ قول کےمطابق مقیم ہوجائےگا)حضورعلیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے"جس نےکسی شہرمیں نکاح کیاوہ اسی شہرسےہے،بحر۔

 (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ،جلد 1،صفحہ337،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:’’مسافر نے کہیں شادی کر لی اگرچہ وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو ،مقیم ہوگیا اور دو شہروں میں اس کی دو عورتیں رہتی ہوں تو دونوں جگہ پہنچتے ہی مقیم ہو جائے گا۔‘‘

 (بھار شریعت،جلد1،صفحہ751،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

    درمختار میں علامات فتوی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وفی اول "المضمرات "اما العلامات للافتاء فقولہ:۔۔۔۔وعلیہ الفتوی،وبہ یفتی،وبہ ناخذ ،وعلیہ الاعتماد ،وعلیہ عمل الیوم،علیہ عمل الامۃوھو الصحیح،او الاصح،او الاظھر،او الاشبہ،او الاوجہ،او المختار،ونحوھامما ذکر فی حاشیۃ البزدوی اھ‘‘مضمرات  کی ابتداء میں ہے،بہرحال افتا کی علامات تو وہ فقہاء کا یہ قول ہے:اسی پر فتوی ہے ،اسی پر فتوی دیا جائے گا،اسی کو ہم لیتے ہیں،اسی پر اعتماد ہے،اسی پر آج  عمل ہے ،اسی پر  امت کا عمل ہے،یہی صحیح ہے ،یا زیادہ صحیح ہے،یازیادہ ظاہر ہے،یا روایۃ منصوص کے زیادہ مشابہ ہے،یا وجہ میں زائد،یا اسی کو اختیار کیا گیا ہے،اور اسی طرح کے الفاظ حاشیہ  بزدوی میں مذکور ہیں۔ ملخصا‘‘

  (درمختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ171تا172،مطبوعہ  کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(او الاوجہ)ای:الاظھر وجھاً من حیث ان دلالۃ الدلیل علیہ  متجھۃ ظاھرۃ اکثر من غیرہ۔‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(یا وجہ میں زائد) یعنی وجہ کے  اعتبار سے زیادہ ظاہراس طرح کہ دلیل کی اس پر دلالت پوری اوراس کے غیر سے زیادہ ظاہر ہو۔

  (رد المحتار،جلد1،صفحہ172،مطبوعہ کوئٹہ)

    کئی فقہاء نے پہلے قول پر اقتصار فرمایا اور شادی کی جگہ کے وطن اصلی ہونے کے لئے،شوہر کی مستقل سکونت کی قید نہیں لگائی۔چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے:’’الکوفی  اذا نوی  الاقامۃ  بمکۃ  ومنی  خمسۃ عشر یوما  لم یکن مقیما ،وان لم یکن  بینھما  مسیرۃ سفر  لانہ لم ینو الاقامۃ  فی احدھما  خمسۃ  عشر یوما ،وان تاھل  بھما  کان کل واحد من الموضعین  وطنا اصلیا لہ ‘‘کوفی جب مکہ و مِنیٰ میں پندرہ دن اقامت کی نیت کر لے تو وہ مقیم نہیں ہوگا اگرچہ دونوں جگہوں کے درمیان مسافت شرعی کی مقدار نہیں ہے کیونکہ اس نے کسی ایک جگہ پندرہ دن اقامت کی نیت نہیں کی اور اگر وہ دونوں جگہ اہل بنا لے تو دونوں جگہیں اس کے لئے وطن اصلی ہوں گی۔        

(فتاوی قاضی خان،جلد1،صفحہ148،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

    خلاصہ الفتاوی میں ہے:’’ الوطن الاصلی  وھو مولد الرجل  والبلدۃ التی تاھل بھا۔‘‘وطن اصلی اور وہ آدمی کی پیدائش کی جگہ اور وہ شہر ہے جس میں اس نے اہل بنا لیا۔

  (خلاصۃ الفتاوی،ج1،ص204،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے شادی  کی جگہ کومطلقاً وطن اصلی شمار فرمایا ،جس سے معلوم ہوتا ہے،چاہے شوہر کی وہاں سکونت کی نیت نہ بھی ہو تب بھی وہ جگہ اس کا وطن اصلی ہوجائے گی۔چنانچہ فرماتے ہیں :’’جبکہ وہ دوسری جگہ  نہ اس کا مولد ہے نہ اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا  یعنی یہ عزم نہ کر لیا کہ  اب یہیں رہوں گا  اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا  بلکہ وہاں کا قیام  صرف  عارضی  بربنائے  تعلق تجارت یا نوکری ہے  تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی  اگر چہ وہاں  بضرورت معلومہ  قیام زیادہ  اگر چہ وہاں برائے چندے یا  تا حاجت  اقامت  بعض یا کل اہل و عیال کو بھی لے جائے کہ بہرحال یہ قیام  ایک وجہ  خاص سے ہے  نہ  مستقل ومستقر،تو جب وہاں سفر سے آئے گا  جب تک 15 دن کی نیت نہ   کرے گا  قصر ہی پڑھے گا  کہ  وطن اقامت  سفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے ۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ271،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن امام قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح سے متعلق فرماتے ہیں:’’امام علامہ فقیہ النفس مالک التصحیح و الترجیح فخر الملۃ والدین قاضی خان اوزجندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے فتاوی میں روایت صحت پر جزم کیا ہے او راسی پر اقتصار فرمایا دوسری روایت نقل بھی نہ فرمائی اور اسی روایت کو مدلل و مبرہن کیا اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ کسی قول پر اقتصار کرنا اس کے اعتماد کی دلیل ہے اور یہ بھی تصریح فرماتے ہیں کہ کسی قول کو مدلل و مبرہن کرنا بھی اس کی ترجیح کی دلیل ہے۔پس دو وجہ سے ثابت ہوا کہ امام قاضی خان نے صحت بیع پر اعتماد فرمایا اور اسی کو ترجیح دی اب علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اس امام اجل کا ارشاد زیادہ اعتبار و اعتماد کے لائق  اور ان کی تصحیح و ترجیح فائق ہے کہ انھیں رتبہ اجتہاد حاصل تھا۔ملخصا‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ253،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    مذکورہ بالا تفصیل سے  یہ واضح ہوگیا کہ شادی کی جگہ کے وطن اصلی ہونے کے لئے شوہر کی وہاں مستقل سکونت ہونا ضروری نہیں ،لیکن شوہر کی سکونت ضروری نہ ہونے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہاں  بیوی کی سکونت بھی ضروری نہیں،اوپر تفصیل سے اس بات کو ثابت کر دیا گیا ہے کہ بیوی کی وہاں مستقل  سکونت ہونا  ضروری ہے،تب ہی وہ جگہ شوہر کے لئے وطن اصلی ہوگی،لہذا اس بات کو اچھے طریقہ سے سمجھ لیا جائے،یاد رکھا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم