15 Din Rehne Ki Niyat Hatmi Na Ho Shak Ho To Kya Musafir Muqeem Ban Jayega ?

پندرہ دن رہنے کی نیت حتمی نہ ہو، اس میں شک ہو، تو کیامسافر مقیم بن جائے گا؟

مجیب:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی  نمبر:102

تاریخ  اجراء: 16ربیع الاول1439ھ/05دسمبر2017ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا وطن اصلی لاہور ہے، وہ ذہنی آزمائش سلسلے میں شرکت کرنے کے لئے لاہور سے کراچی گیا، اب اسے معلوم نہیں کہ وہاں کتنے دن ٹھہرنا پڑے گا، اگر پہلے سلسلے میں کامیابی نہ ملی، تو پھر پندرہ دن سے پہلے ہی واپس آ جائے گا ، اگرکامیابی مل گئی ،تو اگلے سلسلے میں بھی شرکت کرنی ہو گی جو کہ چند دن بعد ہوگا ۔اب بھی وہی تردد والی کیفیت ہےکہ معلوم نہیں پندرہ دن مزید ٹھہرنا پڑے گا یا اس سے پہلے ہی واپس چلا جائے  گا ؟اسی طرح فائنل تک یہ کیفیت برقرار رہتی ہے، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ زید وہاں پر نمازیں پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

      صورتِ مسئولہ میں زیدقصر نماز ادا کرے گا،کیونکہ یہ سفرِ شرعی کر کے آیا ہے یعنی مسافر ہے اور مسافرجب کسی جگہ پورے پندرہ دن رہنے کی حتمی نیت کرے، تو تب وہ اس جگہ مقیم ہوتا ہے اور اب اس نے قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے اور اگر پندرہ دن رہنے کی نیت حتمی و جزمی نہ ہو، بلکہ اس میں ابہام و تردد ہو ،تو ایسی نیت سے مسافر مقیم نہیں بنتا، بلکہ شرعاً  وہ اس کی حالتِ سفر ہی شمار ہوتی ہے اور اس پر قصر کرنا لازمی ہوتا ہے اورصورت مسئولہ میں زیدکی نیت بھی پندرہ دن اقامت کی حتمی و جزمی نہیں ہوگی، بلکہ نیت میں تردد و استثناء موجود ہے کہ اگر کامیابی نہ ملی ،تو میں پندرہ دن سے قبل چلا جاؤں گا ،لہٰذا جب نیت جزمی نہیں بلکہ اس میں تردد ہے، تو ایسا شخص مقیم نہیں بنے گا، بلکہ مسافر ہی رہے گا۔

   حلبہ میں غایہ کے حوالے سے ہے :”نیۃ الاقامۃ خمسۃ عشر یوما یعتبر عزمہ علی الثبات “ترجمہ: پندرہ دن رہنے کی نیت میں اس کا پختہ عزم ہونا معتبر ہے ۔ (حلبۃ المجلی، جلد2، صفحہ528،  مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   شرح سیر کبیر للسرخسی میں ہے:”وإن دخل المسلمون أرض الحرب فانتهوا إلى حصن ووطنوا أنفسهم على أن يقيموا عليه شهرا إلا أن يفتحوه قبل ذلك، أخبرهم الوالي بذلك، فإنهم يقصرون الصلاة. لأنهم لم يعزموا على إقامة خمس عشرة ليلة لمكان الاستثناء، فالفتح قبل مضي خمس عشرة ليلة محتمل “ترجمہ: اور اگر مسلمان دار الحرب میں داخل ہوئے اور کسی قلعے کے پاس پہنچ کر یہ نیت کر لی کہ ہم یہاں ایک مہینا رہیں گے الا یہ کہ ہم اس سے پہلے فتح حاصل کر لیں ، یہ بات ان کو والیِ لشکر نے بتائی،تو تمام افراد قصر نماز ہی ادا کریں گے ، کیونکہ ان کا پندرہ راتیں رہنے کا عزم نہیں اس لیے کہ درمیان میں استثناء موجود ہے، کیونکہ پندرہ راتوں سے قبل بھی فتح کا احتمال ہے۔ )شرح سیر کبیر، صفحہ245، مطبوعہ الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات(

   امام ابن ہمام رحمۃ  اللہ علیہ اپنی کتاب میں اسی مسئلے کی شر ح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” ومجرد نية الإقامة لا تتم علة في ثبوت حكم الإقامة كما في المفازة، فكانت البلد من دارالحرب قبل الفتح في حق أهل العسكر كالمفازة من جهة أنها ليست بموضع إقامة قبل الفتح، لأنهم بين أن يهزموا فيقروا أو يهزموا فيفروا، فحالتهم هذه مبطلة عزيمتهم، لأنهم مع تلك العزيمة موطنون على أنهم إن هزموا قبل تمام الخمسة عشر وهو أمر مجوز لم يقيموا، وهذا معنى قيام التردد في الإقامة فلم تقطع النية عليها، ولا بد في تحقق حقيقة النية من قطع القصد۔۔۔ وعلى هذا قالوا فيمن دخل مصرا لقضاء حاجة معينة ليس غير ونوى الإقامة خمسة عشر يوما لا يتم، وفي أسير انفلت منهم ووطن على إقامة خمسة عشر في غار ونحوه لم يصر مقيما۔ ملتقطا “ترجمہ: محض اقامت کی نیت کر لینا اقامت کا حکم ثابت کرنے کے لیے علت  نہیں جیساکہ جنگل میں نیت کر لینے کا معاملہ ہے، لہٰذا فتح حاصل کر لینے سے قبل سپاہیوں کے حق میں دارالحرب کا یہ شہر جنگل کی طرح ہی ہے اس اعتبار سے کہ فتح سے قبل یہ اقامت کی جگہ نہیں، کیونکہ وہ دومعاملوں کے درمیان ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے (کفار کو )  شکست دے دی، تو رُک جائیں گے اور اگر  شکست ہوئی تو یہاں سے فرار ہو جائیں گے، لہٰذا ان کی حالت ان کے ارادے کو باطل کرنے والی ہے، کیونکہ جب ان کا یہ اراد ہے، تو یہ اس طور پر یہاں رکے ہیں کہ اگر پندرہ دن سےقبل ان کو شکست ہوگئی ، جو کہ ایک ممکن امر ہے ، تو یہ اقامت نہیں کریں گے ، اور یہی مطلب ہے اقامت میں تردد ہونے کا کہ اقامت کی نیت قطعی و حتمی نہیں ہے ،جبکہ سچی نیت کے تحقق کے لئے قطعی ارادے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں جو شخص کسی شہر میں اپنی مخصوص حاجت کے لئے آیا اور اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں اور اس نے پندرہ دن رکنے کی نیت کر لی ،تو وہ پوری نماز نہیں پڑھے گا ، یونہی قیدی جب کفار سے چھوٹ کر بھاگا اور کسی غار وغیرہ میں پندرہ دن رکنے کی نیت کر لی، تو وہ مقیم نہیں ہوگا۔)فتح القدیر، جلد2، صفحہ35،36، مطبوعہ کوئٹہ(

   غنیہ میں اسی مسئلے  کے ضمن میں ہے :”ولا بد  فی تحقق  النیۃ  من  الجزم   ترجمہ: (اقامت کی) نیت کےتحقق کے لئےجزم ہونا ضروری ہے۔ )غنیہ، جلد1، صفحہ540،  مطبوعہ کوئٹہ۔(

   فتاویٰ رضویہ میں ہے :’’نیت سچے عزمِ قلب کا نام ہے، پندرہ دن ٹھہر نے کا ارادہ کرلے ، اور جانتا ہے کہ اس سے پہلے چلے جانا ہے تو یہ نیت نہ ہوئی محض تخیل ہوا  ۔۔۔معراج الدرایہ پھر عالمگیریہ میں ہے:’’ قال اصحا بنا رحمھم ﷲ تعالٰی فی تاجردخل مدینۃ لحاجۃ نوی ان یقیم خمسۃ عشریوما لقضاء تلک الحاجۃ لایصیر مقیما لانہ متردد بینا ان یقضی حاجتہ فیرجع وبین ان لا یقضی فیقیم فلا تکون نیتہ مستقرۃ وھذا الفصل حجۃ علی من یقول من اراد الخروج الی مکان ویرید ان یترخص برخص السفرینوی مکانا ابعد منہ وھذاغلط ‘‘ہمارے اصحاب رحمھم اﷲ تعالٰی نے اس تاجر کے بارے میں فرمایا جوکسی شہرمیں کسی ضرورت کے لئے گیا ، اس نے حصول حاجت کے لئے پندرہ دن اقامت کی نیت کرلی ،تو وہ مقیم نہ ہوگا ،کیونکہ وہ متردد ہے اس بارے میں کہ اگر اس کی حاجت پوری ہو گئی، تو لوٹ جائے گا اور اگرپوری نہ ہوئی ،تو اقامت کرے گا تو اس کی نیت پختہ نہ ہوئی، یہ صورت اس شخص کے خلاف حجت ہے جو کہتا ہے کہ جو کوئی کسی جگہ کی طرف نکلنا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے سفر کی سہولت میسر ہو( حالانکہ وہ جگہ اتنی دور نہیں) تو وہ کسی دور جگہ کی نیت کرکے نکل پڑتا ہے تاکہ رخصت حاصل ہوجائے تو یہ غلط ہے ۔(فتاوی رضویہ ،جلد8، صفحہ 261،262،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم