امام کے ساتھ دنیاوی رنجش رکھنا اور پھر اسی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2357

تاریخ اجراء: 10ربیع الثانی 1443ھ/16نومبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ایک امام صاحب  میں اہلیتِ امامت کی تمام شرائط موجود ہیں اور وہ امام صاحب تمام حاضرین میں سے نماز و طہارت کے مسائل میں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایک شخص دنیاوی دشمنی و رنجش  کی وجہ سے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند سمجھتا ہے۔کیا ایسے شخص کی نماز امام صاحب کے پیچھے ہو جائے گی یا نہیں؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں اگر واقعی امام صاحب میں  اہلیتِ امامت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں، تو ایسے امام  صاحب کے پیچھے اس مقتدی کی نماز ہوجائے گی،البتہ امام صاحب کی اقتداکو ناپسندکرنے والے شخص پر ملامت کی جائے گی،لہذاایسے شخص کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کےساتھ  دنیاوی معاملات کی وجہ سے رنجش نہ رکھے اوراس کام سے باز رہے۔

   سنن ابی داؤد کی حدیث پاک کےایک جز:”من تقدم قوما و ھم لہ کارھون “ترجمہ: جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھا، حالانکہ قوم اس کے امام بننے کو ناپسند کرتی ہے۔اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ھذا الوعید فی حق الرجل الذی لیس من اھل الامامۃ فیتغلب علیھا حتی یکر ہ الناس امامتہ فاما المستحق للامامۃ فاللوم علی من کرھہ“ترجمہ:یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو امامت کا اہل نہیں ہے اورلوگوں کی ناپسندیدگی کے باجود  امامت کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے۔ بہر حال  جو امامت کا مستحق ہے  ،تو اس صورت میں  جو ناپسند کر رہے ہیں، ان پر ملامت ہوگی۔ (شرح ابی داود للعینی، جلد3، صفحہ 98، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

   نہر الفائق میں ہے:”ام قوما وھم لہ کارھون ان الکراھۃ لفساد فیہ او لانھم احق منہ بالامامۃ کرہ لہ ذلک و ان کان ھو احق بالامامۃ لا یکرہ و الکراھۃ علی القوم“ترجمہ:اگر کوئی شخص قوم کی امامت کرواتا ہے،اور وہ اس کو ناپسند کرتے ہیں، تو  اگر امام میں کسی خرابی کی وجہ سے کراہت ہو یا دوسرے لوگ امام سے زیادہ امامت کے حقدار ہوں،تو(اس کا امام بننا)مکروہ ہے اور اگر وہی امامت کا سب سے زیادہ حقدار ہو (اور اس میں کوئی فساد بھی نہ ہواور اس کے باوجود لوگ اس کو ناپسند کریں) توکراہت قوم پر ہے۔(نھر الفائق، جلد1، صفحہ 242، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   بحرا لرائق میں ہے:”والکراھۃ علی القوم  و ھو ظاھر لانھا ناشئۃ عن الاخلاق الذمیمۃ“ترجمہ:اور کراہت قوم پر ہو گی اور یہی ظاہر ہے، کیونکہ یہ ناپسندیدگی برے اخلاق سے  پیدا ہوئی ۔ (بحر الرائق، جلد1، صفحہ609، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” کراہت قوم اگر بلاوجہ شرعی ست چنانکہ امامت عالمی صالح رابسبب بعض منازعات دنیویہ خودشاں مکروہ دارند یا امامت عبد واعمی دامثالہمارا بانکہ افضل واعلم قوم باشند بد پندارند نگاہ کراہت ایشاں باشد ودرحق امامت اثرے ندارد ،واگر بوجہ شرعی است چنانکہ امام فاسق یامبتدع ست یا بحالِ عدم اعلمیت یکے ازاربعہ مذکورین اعنی عبدواعرابی وولدالزناواعمی است یا آنکہ درقوم کسے ست بوجہ مرجحات شرعیہ مثل زیادت علم وجودت قرأت وغیرہما احق واولٰی ازوست دریں حالت ہمچوکس راباوصف مکروہ داشتن قوم بامامت پیشن رفتن ممنوع ومکروہ تحریمی ست ۔۔۔بالجملہ موجب کراہت دوگونہ است یکے ذاتی کہ خوددرآنکس وجہے باشد کہ شرعاً امامت اومطلقاً یادرجماعت حاضرہ ممنوع یا خلاف اولی بود چنانکہ امثلہ اش گزشتہ دوم خارجی وآں مکروہ پنداشتن قوم است مرتقدم اورا،بازذاتی بردوصنف است یکے لحق الشرع چوں فسق وابتداع وجہل ،دوم لحق الغیر چوں حضور صاحب البیت یا امام الحی یا قاضی یا سلطان کہ خلواینکس از مزیتے کہ دیگرے دارد حامل برکراہت شدازیں کراہت ذاتی است ووجہ اومرعات حق غیر است۔۔۔تاثیرذاتی درنفس نماز است واثر خارجی برذات امام یاقوم نہ برنماز ،ووقوع اثرش برامام مشروط بوجہ اول ست ورنہ خود برقوم بازگرد۔۔۔اعمی مثلاً اعلم قوم نباشد وقوم ہم بتقدیم او راضی نے انگاہ تقدم مراو را مکروہ تحریمی بود ونمازپس اومکروہ تنزیہی واگر قوم بتقدیم او راضی شودکراہت اولی مرتفع شود وثانیہ باقی واگراعلم قوم است پس بحال رضارضائے قوم ہیچ کراہتے نیست وحال کراہت خودبرکاہین است وامام وامامت بری مثلہ فی ذلک نظرائہ الثلٰثۃ علی مابحثہ فی البحر “ترجمہ:اگر قوم کی کراہت شرعی عذر کے بغیر ہو ،جیسا صالح اور عالم کی امامت کو اپنے بعض دنیوی تنازعے کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہوں یاغلام، نابینا وغیرہ کی امامت کو مکروہ سمجھتے ہوں ،حالانکہ وہ قوم سے افضل ہوں،تو ایسی صورت میں قوم کی اپنی ناپسندیدگی کوئی معنی نہیں رکھتی،  لہذا ان افراد کی امامت میں وہ اثرانداز  نہ ہوگی ، اگر کراہت کسی شرعی عذر سے ہو ،مثلاً: امام فاسق یا بدعتی ہو یا مذکورچار افراد غلام، اعرابی ،ولد زنا اور نابینا دوسروں سے افضل واعلم نہ ہوں یا قوم میں کوئی ایساشخص موجود ہو ،جس میں شرعی ترجیحات ہوں ،مثلاً :علم زیادہ رکھتا ہے،تجوید وقراءت کا ماہر ہے ،تو یہ خود امامت کےزیادہ لائق اور حقدار ہے،ایسی صورت میں جس شخص کو امام بنانا قوم مکروہ جانے اس شخص کو امام بننا ممنوع اور مکروہ تحریمی ہے۔۔۔الغرض کراہت کا سبب دوطرح پر ہے ،ایک ذاتی کہ اس شخص کے اندر ایسی بات پائی جاتی ہو کہ اس کی امامت مطلقاً یا جماعت حاضرہ میں ممنوع یا خلافِ اولی ہو ،جیسا کہ اس کی مثالیں گزریں ۔دوم سبب خارجی ہے، وہ یہ کہ قوم خاص اس کے امام بننے کو ناپسند جانتی ہو، پھر ذاتی کی دوصورتیں ہیں۔ ایک حق شرع کی بنا پر ،مثلاً :فاسق ہونا ،بدعتی ہونا اور جاہل ہونا۔دوم غیر کے حق کی وجہ سے، مثلاً: صاحب خانہ، امام محلہ ،قاضی یاسلطان کاموجود ہونا ،کیونکہ اس صورت میں یہ شخص اس اضافی چیز سے خالی ہے، جو دوسرے میں ہے، لہذا اس وجہ سے کراہت آئے گی ،اس وجہ سے یہ ذاتی ہے اور اس کی وجہ حق غیر کی رعایت ہے۔۔۔ذاتی کااثر نماز پر پڑتا ہے،خارجی کا اثر ذاتِ امام یا قوم پر ہوگا نماز پر نہیں ، خارجی کا وقوع ِاثر امام پر وجودِاول سے مشروط ہے ،ورنہ خودقوم پراثر لوٹ جائے گا۔۔۔ نابینا مثلاً: جو قوم سے زیادہ عالم نہ ہو اورقوم اس کے تقدم پر راضی نہ ہو، تو اس کا امام بننا مکروہ تحریمی ہوگا اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اگر قوم اس کے تقدم پر راضی ہو ،تو پہلی کراہت ساقط دوسری باقی رہے گی۔ اوراگر قوم سے زیادہ عالم ہو، توقوم کی رضا کی صورت میں کوئی کراہت نہ ہوگی،اگر قوم ناپسندکرتی ہو تو کراہت ان لوگوں پر ہوئی جو ناپسند کررہے ہیں اور امام اور امامت دونوں اس (کراہت) سے بری ہوں گے،باقی تینوں کا بھی یہی حکم ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ471، 475، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

   مزید ایک مقام پر فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر اس میں کوئی قصور شرعی نہیں، تو اس کی امامت میں کوئی حرج نہیں اور ان رنج والوں پر وبال ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ575، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:”محض دنیاوی عداوت ہے اور زید قابل امامت ہے، تو بکر  زید کے پیچھے نماز  پڑھے، کچھ کراہت نہیں۔بلکہ محض دنیاوی عداوت کی بنا پر ، اس کے پیچھے نماز چھوڑ دینے سے خود بکر پر ، الزام ہے۔۔۔دنیاوی عداوت کی بنا پر تین دن سے زیادہ جدائی اور قطع تعلق جائز بھی نہیں  نہ کہ اس حد کی کہ جس مسجد میں وہ نماز پڑھے،یہ اس کے ساتھ بھی نماز نہ پڑھےاس کی اقتداء تو در کنار ۔۔۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی عداوت کو دور کریں اور مل کر رہیں کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔“(فتاوی امجدیہ، جلد1، حصہ 1، صفحہ111، 112، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

    فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین  امجدی  رحمۃ اللہ علیہ امام کی برائی بیان کرنے والے مقتدی کے بارے میں فرماتے ہیں :”اگر امام فاسق معلن نہیں ہے، تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ،مگر اس کی نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی ۔“(فتاوی فیض الرسول،جلد1،صفحہ272، شبیر برادرز ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم