گاؤں ، دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم ؟

مجیب:مولانا شاکرصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar-6687

تاریخ اجراء:13ذیقعدۃالحرام1440ھ/17جولائی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیاگاؤں میں جمعہ ہوسکتاہے؟کیااس سے ظہرساقط ہوجائےگی؟

سائل:محمدعثمان(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    گاؤں کے وہ سب لوگ جن پر شرائط جمعہ(مسلمان مرد،مقیم،تندرست ،عاقل،بالغ)پائےجانےکی صورت میں شرعاً جمعہ فرض ہوجاتا ہے،گاؤں کی سب سے بڑی مسجد میں نماز پڑھیں اوراس میں پورے نہ آسکیں،بلکہ اس کی توسیع کرنا پڑے،تو ایک روایت کے مطابق ایسے گاؤں میں جمعہ درست ہےاور فی زمانہ مفتیان کرام نے اسی روایت پرفتوی دیا ہے اورایسے گاؤں میں نمازجمعہ اداکرنے سے ظہرساقط ہوجائے گی اوراگر گاؤں میں اتنے افراد نہ ہوں ، تواس میں نمازجمعہ شروع کرنا،ناجائزوگناہ ہے اوروہاں کے بالغ افرادپرظہرفرض ہوگی۔

    امام اکمل الدین بابرتی رحمہ اللہ تعالی”عنایہ“میں لکھتے ہیں:”وعنہ أی أبی یوسف (أنھم اذااجتمعوا)أی اجتمع من تجب علیہ الجمعة لاکل من یسکن فی ذلک الموضع من الصبیان والنساء والعبید لأن من تجب علیھم مجتمعون فیہ عادة۔قال ابن شجاع؛أحسن ماقیل فیہ اذاکان أھلھابحیث لواجتمعوافی أکبرمساجد ھم لم یسعھم ذلک حتی احتاجواالی بناء مسجد آخر للجمعة“ترجمہ؛یعنی امام ابویوسف سے روایت ہے کہ وہ لوگ جن پر جمعہ لازم ہے نہ کہ وہ تمام لوگ جو وہاں سکونت پذیر ہیں مثلا بچے ،خواتین اور غلام۔ابن شجاع نے کہا کہ اس بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جب جمعہ کے اہل لوگ وہاں کی سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں حتی کہ وہ جمعہ کے لئے ایک اور مسجد بنانے پر مجبور ہوں۔

(عنایہ شرح ھدایہ،کتاب الصلاۃ، ج02، ص52 ، مطبوعہ بیروت )

    علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”المصر وھو مالا یسع اکبر مساجدہ  اھلہ المکلفین بھا وعلیہ فتویٰ اکثرالفقھاء “ترجمہ: شہر وہ ہے کہ اس کی مساجد میں سے بڑی مسجد میں وہاں کے وہ باشندے نہ سما سکیں جن پر جمعہ فرض ہے اور اسی پراکثر فقہاء کرام کا فتویٰ ہے۔                                                                                                                   

(ردالمحتار معہ در مختار ،کتاب الصلاۃ،ج03،ص06،مطبو عہ کوئٹہ )

    علامہ ابن نجیم مصری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”وعن ابی یوسف انہ مااذااجتمعوافی اکبرمساجدھم للصلوات الخمس لم یسعھم وعلیہ  فتویٰ اکثرالفقھاء وقال ابو شجاع : ھذا احسن ماقیل  فیہ۔وفی الولوالجیة:وھو الصحیح“ترجمہ:امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ شہر وہ ہے کہ جب وہاں کے باشندے اپنی مساجد میں سے بڑی مسجد میں نمازِپنجگانہ کے لئے جمع ہوں تو وہ انھیں کم پڑ جائے اور اسی پراکثر فقہاء کرام کا فتویٰ ہے۔ ابو شجاع علیہ الرحمۃ نے فرمایا :یہ بہترین تعریف ہے جوشہر کی کی گئی ہے اورولوالجیہ میں ہے کہ یہی تعریف صحیح ہے۔

(البحرالرائق،کتاب الصلاۃ ،ج02،ص247،مطبوعہ کوئٹہ)

    اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد ،عاقل ،بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ۔۔۔ جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعت متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے۔ “

(فتاوی رضویہ ،ج08،ص347،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    اور ایسی جگہ جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ، وہاں ظہر کی نماز کے بارے میں خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عابدین شامی نقل فرماتے ہیں:” لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر“ترجمہ: اگر لوگ (ایسے)گاؤں میں (جہاں جمعہ جائزنہیں) جمعہ ادا کریں تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ہی ضروری ہے ۔

(رد المحتار معہ درمختار  ،ج03،ص08، مطبوعہ کوئٹہ)                                                                                                                                                                  

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم