نماز میں چادر اوڑھنے کا طریقہ

مجیب:     مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:  Pin-4365

تاریخ اجراء:  17ربیع الثانی1437ھ28جنوری2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں کہ مسجد میں لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں ، تو سردی کی وجہ سے اوپر چادر اوڑھے ہوتے ہیں، بعض سر کے اوپر سے اور بعض فقط کندھوں کے اوپر سے اوڑھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں اور بعض تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ چادر کے اندر رکھ کر باندھ لیتے ہیں ،اس کے متعلق سوال یہ ہے کہ:

(1)فقط کندھوں پرچادر اوڑھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

(2)قیام میں ہاتھ چادر کے اندر باندھ کر نماز پڑھنا کیسا  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)نماز کی حالت میں چادر سر کے اوپر سے اوڑھ کر نماز پڑھنی چاہیے کہ یہ ہی سنت ہے اور حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے نمازیوں کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا ، جو سر کے اوپر سے چادر نہیں لیتے،البتہ اگر کوئی فقط کندھوں کے اوپر سے چادر اوڑھ کر نماز پڑھتا ہے ، تو اس کی نماز درست ہے ۔

     نماز میں سر پر چادر نہ لینے والوں کے متعلق کنزالعمال میں ہے:’’لاينظراللہ الى قوم لايجعلون عمائمهم تحت ردائهم يعنی فی الصلاة‘‘ ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس قوم کی طرف نظررحمت نہیں فرماتا جونماز میں اپنے عمامے اپنی چادروں کے نیچے نہیں کرتے۔ ‘‘(کنز العمال ،ج7،ص516،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اسی طرح کا سوال ہوا ، تو ارشاد فرمایا:’’چادر اوڑھنے میں بہتر یہ ہے کہ سر سے اوڑھے،اس طرح سے اوڑھنا مطابق سنت ہے اور کندھے سے اگر اوڑھی جب بھی نماز ہو جائے گی ،نماز میں کراہت نہیں۔‘‘

(فتاو    ی امجدیہ،ج1،ص200،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

      (2)نماز کے دوران قیام کی حالت میں  چادر کے اندرہاتھ باندھ لینا جائز ہے ،کیونکہ نماز کے دوران ہاتھ ننگے رکھنا ضروری نہیں ،لیکن بہتر یہ ہےکہ سردی وغیرہ عذر نہ ہو ، تو  ہاتھ چادر سے باہر نکال کر ہی باندھے جائیں۔

     جواز پر یہ دلیل ہے جومسلم شریف میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے اس حالت میں دیکھاکہ:’’رفع یدیہ حین دخل فی الصلاۃ کبر ،وصف ھمام حیال اذنیہ ثم التحف بثوبہ ،ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری ،فلما اراد ان یرکع اخرج یدیہ من الثوب ‘‘ ترجمہ: سرکار صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں داخل ہوئے تو ہاتھوں کو اٹھا کر تکبیر تحریمہ کہی (ھمام نے کہا کہ کانوں کے برابر ہاتھ اٹھائے)پھر اپنے آپ کو کپڑے میں لپیٹا اور  دائیں ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھ  لیا ،پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا، تو اپنے ہاتھوں کو کپڑے سے نکال لیا۔ (صحیح مسلم ،ج1،ص173،مطبوعہ کراچی)

     ’’التحف بثوبہ‘‘کے تحت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :’’ اخرج یدہ من الکم حین کبر للاحرام ،ولما فرغ من التکبیر ادخل یدیہ فی کمیہ ،قال ابن الملک ولعل التحاف یدیہ بکمیہ لبرد شدید ‘‘یعنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کے لیے آستین سے اپنے ہاتھ مبارک نکالے ،جب تکبیر سے فارغ ہوئے ،تو پھر آستین میں ہاتھوں کو داخل کر لیا ،ابن ملک نے فرمایا شاید ہاتھوں کو لپیٹنا شدیدسردی کے باعث تھا ۔

 (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،ج2،ص657،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

     مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر ہے:’’یجوز ادخالھما فی الکمین فی غیر حال التکبیر لکن الاولی اخراجھما فی جمیع الاحوال‘‘ترجمہ:تکبیر تحریمہ کے علاوہ دونوں ہاتھوں کو آستینوں میں داخل کرنا ، جائز ہے  ، لیکن اولیٰ یہ ہے کہ نماز کے تمام احوال میں  دونوں ہاتھ آستین سے باہر رکھے جائیں ۔

(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر،ج1،ص91،مطبوعہ دار احیاء التراث ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم