Admi Apne Watan Asli Mein Dakhil Hote Hi Muqeem Ho Jata Hai

آدمی اپنے وطن اصلی میں داخل ہوتے ہی مقیم ہو جاتا ہے

مجیب:ابومحمدمحمدسرفرازاخترعطاری

مصدق: مفتی  فضیل رضا عطاری       

فتوی نمبر:123

تاریخ اجراء: 20محرم الحرام1438ھ/22اکتوبر2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں خانپور کا رہائشی ہوں ۔ہمارا پہلے رحیم یار خان مدنی مشورہ تھا اور اس کے بعد احمد پور شرقیہ بھی، لہٰذا میں پہلے خانپور سے رحیم یار خان مدنی مشورہ میں حاضر ہوا۔پھر وہاں سے احمد پور شرقیہ گیا۔احمد پور شرقیہ رحیم یار خان سے تقریباً 96کلو میٹر یعنی شرعی سفر بنتا ہے، جبکہ خانپور سے احمد پور شرعی سفر نہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ میں نے جو رحیم یار خان سے سفر شروع کیا اور راستہ میں خانپور سے بھی گزرا اس میں میں مسافر ہوا یا نہیں ؟اور مجھے قصر کرنی چاہیے تھی یا نہیں ؟جبکہ رحیم یار خان سے احمد پور سفر کرتے ہوئے عشاء کی نمازمیں نے احمد پور میں قصر کر کے پڑھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آدمی کا وطن اصلی اس کی اقامت کے لئے متعین ہے یعنی آدمی جب اپنے وطن اصلی میں داخل ہوجائے، تو چاہے مقیم ہونے کی نیت ہو یا نہ ہو، داخل ہونا چاہے کسی حاجت کے لئے ہویا صرف عبورکرنے (گزرنے) کے لئے ، بہرحال آدمی مقیم ہو جاتا ہے اور اس کا سفر ختم شمار کیا جاتا ہے۔اس کے مطابق رحیم یار خان سے احمد پور شرقیہ جاتے ہوئے راستہ میں جب آپ اپنے وطن اصلی یعنی خانپور پہنچے،تو اگرچہ آپ کا خانپور آنا صرف وہاں سے گزرنے کے لئے تھا ،مذکورہ بالا قانون شرعی کے مطابق آپ کا سفر منقطع ہو گیا۔اس طرح آپ صرف خانپورسے احمد پور سفر کرنے والے کہلائے اور خانپور سے احمد پورچونکہ شرعی سفر نہیں بنتا یعنی دونوں کا فاصلہ 92کلو میٹر سے کم ہے، لہذا آپ مسافر شرعی نہ ہوئے اور آپ پر بغیر قصر پوری نماز پڑھنا فرض تھا،جبکہ آپ کے بیان کے مطابق اس دوران آپ نے عشاء کی نماز قصر پڑھی، اس طرح آپ کا فرض ادا نہ ہوا لہذا اس کی قضا فرض ہے۔

      مراقی الفلاح میں ہے:’’(یقصر حتی یدخل مصرہ)یعنی وطنہ الاصلی(أو ینوی اقامۃ نصف شھر ببلد أو قریۃ)‘‘مسافرقصر کرے گا یہاں تک کہ اپنے شہر یعنی اپنے وطن اصلی میں داخل ہو جائے یا کسی شہر یا گاؤں میں آدھا مہینا اقامت کی نیت کر لے۔)مراقی الفلاح مع الطحطاوی،صفحہ 425،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت(

   طحطاوی علی المراقی میں ہے:’’قولہ:(یعنی وطنہ الاصلی)والاطلاق دال علی ان الدخول أعم من ان یکون للاقامۃ أو لا و لحاجۃ نسیھا۔ملخصا‘‘ مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول:(یعنی اپنے وطن اصلی) اور اطلاق اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ بے شک داخل ہونا اس سے عام ہے کہ وہ اقامت کے لئے ہو یا(اقامت کے لئے) نہ ہو اور کسی ایسی حاجت کے لئے ہو جسے وہ بھول گیا ہو۔)طحطاوی علی المراقی ،صفحہ 425، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت(

         الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:’’(وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو المقام فيه) سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجة،  لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية ‘‘اور جب مسافر اپنے شہر میں داخل ہو جائے، تو پوری نماز پڑھے گا اگرچہ اس نے وہاں اقامت کی نیت نہ کی ہو ،برابر ہے کہ عبور کرنے کے لئے داخل ہوا ہو یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے داخل ہوا ہو،کیونکہ اس کا شہر اقامت کے لئے متعین ہے، لہذا(مقیم ہونے کے لئے) نیت کی حاجت نہیں ۔(الجوھرۃ النیرۃ ،جلد 1،صفحہ 219،مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم