Agar Muqtadi Imam Se Pehle Salam Pher De To Namaz Hogi Ya Nahi

مقتدی نےتشہد پڑھنے کے بعدامام سے پہلے سلام پھیر دیا تو نماز ہو گئ یا نہیں ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12472

تاریخ اجراء:        16 ربیع الاول 1444 ھ/13 اکتوبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  اگر کسی نمازی(جس کی کوئی رکعت فوت نہیں ہوئی ) نے تشہد پڑھنے کے بعدبلا عذرِ شرعی امام صاحب سے پہلے سلام پھیر دیا ،تو کیا حکم ہے؟کیا اس نماز کو دوبارہ پڑھنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مقتدی پر تمام فرائض و واجبات میں امام کی اتباع و پیروی واجب  ہے ۔ بلا ضرورتِ شرعیہ اس واجب کا ترک  مکروہِ تحریمی ،ناجائز و گناہ ہے۔ پوچھی گئی صورت میں مقتدی پر واجب تھا کہ امام کی اتباع کرتے ہوئے سلام پھیرے ،لیکن اس نے بلا عذرِ شرعی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے سلام  پھیر دیا، تو  اس کی نماز مکروہِ تحریمی ہوئی جس کو دوبارہ ادا کرنا  واجب ہےاور بلا ضرورتِ شرعی امام سے پہلے سلام پھیرنے کی بنا پر گناہ گار بھی ہوا، اس سے توبہ بھی لازم ہے۔

   فرائض و واجبات میں امام کی اتباع واجب ہے۔اس کے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان متابعۃ الامام فی الفرائض والواجبات من غیر تاخیر واجبۃ“یعنی فرائض و واجبات میں بلا تاخیر امام کی متابعت واجب ہے۔  (ردالمحتار، جلد2،صفحہ 202،بیروت)

   بلا عذرِ شرعی امام سے پہلے سلام پھیرنا مقتدی کے لئے مکروہ ہے۔اس کے متعلق ردالمحتار میں ہے:”لو اتم المؤتم التشھد  بان اسرع فیہ وفرغ منہ قبل اتمام امامہ فاتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام او کلام او قیام جاز ای صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الارکان لان الامام وان لم یکن اتم التشھد لکنہ قعد قدرہ لان المفروض من القعدۃ قدر اسرع مایکون من قراءۃ التشھد وقد حصل وانما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃ الامام بلا عذر“یعنی اگر مقتدی نے تشہد پورا کر لیااس طرح کہ اس نے تشہد میں جلدی کی اور امام کے پورا کرنے سے پہلے فارغ ہوگیا،پھرجو عمل اس کو نماز سے نکال دےیعنی سلام، کلام یا قیام ،اس کا ارتکاب کر لیا، تو اس کی نماز ہوگئی کیونکہ یہ عمل ارکان مکمل ہونے کے بعد حاصل ہوا۔  امام نے اگرچہ تشہد پورا نہیں کیا، لیکن مقتدی تشہد کی مقدار بیٹھ چکا ،کیونکہ  قعدہ میں فرض اتنی مقدار بیٹھنا ہے جس میں تشہد  پڑھ سکے اور وہ تشہد پڑھ چکا ہے ۔  بلا عذر امام کی متابعت ترک کرنے کی وجہ سے مقتدی کے لئے یہ عمل مکروہ ہے۔(ردالمحتار، جلد2،صفحہ 292۔293، بیروت)

   نور الایضاح و مراقی الفلاح میں ہے:”(کرہ سلام المقتدی بعد تشھد الامام قبل سلامہ)لترکہ المتابعۃ“یعنی امام کے تشہد کے بعد اس کے سلام پھیرنے سے پہلے مقتدی کا سلام پھیرنا مکروہ ہے امام کی متابعت ترک کرنے کی وجہ سے(ملتقطا(نورالایضاح مع المراقی،صفحہ 167،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   یہاں کراہت سے مراد کراہتِ تحریمیہ ہے۔اس کے متعلق علامہ سید احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ ”لترکہ المتابعۃ “ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:”علۃ لقولہ:کرہ۔وافاد بہ ان الکراھۃ تحریمیۃ“یعنی یہ جملہ (لترکہ المتابعۃ) ماتن کے قول ”کرہ“کی علت ہے اور اس سے مصنف نے یہ افادہ فرمایا کہ کراہت تحریمیہ ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، صفحہ 311،مطبوعہ:بیروت)

   ردالمحتار میں ہے:”(کرہ تحریما) ای قیامہ بعد قعود امامہ قدر التشھد لوجوب متابعتہ فی السلام “یعنی امام کے بقدرِ تشہد بیٹھنے کے بعد مقتدی کا کھڑا ہوجانا مکروہِ تحریمی ہے سلام میں امام کی متابعت کے واجب ہونے کی وجہ سے۔(ردالمحتار، جلد 2،صفحہ 420، بیروت)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”مقتدی کو امام سے پہلے سلام پھیرنا ،جائز نہیں“(بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 536،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بلا ضرورت امام کی متابعت ترک کرنا گناہ اور نماز بھی واجب الاعادہ ہوگی۔اس کے متعلق امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:اگرمقتدی نے رکوع یاسجدہ امام کے ساتھ نہ کیا بلکہ امام کے فارغ ہونے کے بعد کیا ،تو نماز اس کی ہوئی یانہیں؟تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا ارشاد فرمایا:”ہوگئی اگرچہ بلا ضرورت ایسی تاخیر سے گناہ گار ہوا اور بوجہِ ترکِ واجب اعادۂ نماز کا حکم دیا جائے(فتاوی رضویہ، جلد7،صفحہ 274،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم