Attahiyat Mein Namazi Ki Tawajjo Khas?

التحیات میں نمازی کی توجہ خاص

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-9446

تاریخ اجراء: 20محرام الحرام  1440 ھ/01اکتوبر2018 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا امام غزالی علیہ الرحمہ نے ایسا فرمایا ہےکہ التحیات میں جب السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پڑھو ، تونبی پا ک علیہ السلام کی طرف توجہ کرو ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی اور آپ کے علاوہ کئی بڑے بڑے فقہائےکرام اورمحدثین عظام نے اس بات  کو بیان کیاہےکہ جب نمازی التحیات میں السلام  علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پر پہنچے ، تو اس کی توجہ کا مرکزرحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ ہو نی چاہیے۔

   چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمۃ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں: واحضر فی قلبک النبی صلی اللہ علیہ وسلم وشخصہ الکریم وقل سلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ولیصدق املک فی انہ یبلغہ ویرد علیک ماھو اوفیٰ منہ “یعنی اپنے دل میں ذات پاک علیہ السلام کااورآپ کے مقام ومرتبہ کو حاضر جان اور کہہ : اے نبی علیہ السلام آپ پر سلا م اور اللہ  کی رحمتیں اوربرکتیں ہوں اور تیری امید اس معاملےمیں قوی ہونی چاہیےکہ تیرا سلا م آپ علیہ السلام تک پہنچتاہے اور آ پ اس  سے بہتر جواب عطا فرماتے ہیں ۔(احیاء العلوم ،ج1،ص202،مکتبۃ الصفا  )

   ملا علی قاری علیہ الرحمۃ مرقات شرح مشکوٰۃ میں احیاء العلوم کے حوالے سے فرماتے ہیں:”وقبل قولک السلام علیک احضر شخصہ الکریم فی قلبک ولیصدق املک فی انہ یبلغہ ویرد علیک ماھو اوفیٰ منہ“یعنی التحیات میں السلام علیک پڑھنےسے پہلےاپنے دل میں نبی پا ک علیہ السلام کی ذات کریم رحمۃ للعالمین کو حاضرجان اور قوی امید رکھ کہ یہ سلام آپ علیہ السلام تک پہنچتاہے اور آپ اس  سے بہتر جواب عطا فرماتے ہیں۔(مر قات شرح مشکوۃ ،ج2،ص332،مطبوعہ ملتان  )

   شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ لمعات التنقیح میں التحیات کے الفاظ  السلام علیک ایھا النبی ۔۔۔ کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ویجوز ان یکون لکون ذاتہ الشریفۃ الکریمۃ نصب عین المؤمنین،وقرۃ عین العابدین فی جمیع الاحوال والاوقات خصوصا حالۃ آخر الصلاۃ لحصول النورانیۃ فی القلب وقال بعض العارفین: ان ذلک لسریان الحقیقۃ المحمدیۃ فی ذرائرالموجودات وافراد الکائنات کلھا فھو موجود حاضر فی ذوات المصلین ،وحاضر  عندھم ،فینبغی للمؤمن ان لا یغفل عن ھذاالشھود عند ھذا الخطاب لینال انوار القلب ویفوز باسرار المعرفۃ صلی اللہ علیک یا رسول اللہ وسلم “یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تمام احوا ل اور اوقا ت میں مؤمنین اور عابدین  کا نصب العین اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ،خاص طور پر نمازکے آخر میں دلوں میں نورانیت حاصل کرنے کےلیے،بعض عارفین نے فرمایاکہ نماز میں آپ علیہ السلام  کو مخاطب کرکے سلام عرض کر نا اس وجہ سےہےکہ حقیقت ِذات مقدسہ موجودات کے تمام ذروں اور کائنا ت کے کل افراد میں سرایت کیے ہوئے ہے ،اس وجہ سے آپ علیہ السلام نمازیوں میں بھی موجود ہوتے ہیں اور ان کے پاس ہوتے ہیں ، لہٰذا نمازیوں کوالسلام علیک والےخطاب کے وقت غافل نہیں ہوناچاہیے تاکہ وہ آپ علیہ السلام کے انوارکو حاصل کر سکیں اور آپ کی معرفت کے اسرار سے فیض پاسکیں ۔(لمعات التنقیح ،ج3،ص45،مطبوعہ لاھور  )

   علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں:”ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات، اذن لھم بالدخول فی حریم  الحی  الذی لا یموت ،فقرت اعینھم بالمناجاۃ، فنبھوا علی ان ذلک بواسطۃ نبی الرحمۃ وبرکۃمتابعتہ، فالتفتوا فاذ ا الحبیب فی حریم الحسیب الملک حاضر ،فاقبلواعلیہ قائلین: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یعنی جب نمازی التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھولتےہیں ، توانہیں  اس ذات کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت مل جاتی ہے ، جسے کبھی موت نہیں آنی اور مناجات کے ذریعےان کی آنکھیں ٹھندی ہوتی ہیں ،پھر وہ متنبہ ہوتے ہیں کہ یہ سب  تو نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رحمت اور آپ کی پیروی کی برکت ہے  ، تو وہ متوجہ ہوتے ہیں اورحبیب علیہ السلام بھی  اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہیں ، تو وہ آپ کی طرف توجہ کر کے یہ کہتے ہیں : السلام  علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (مواھب لدنیہ ،ج10،ص382،دار الکتب العلمیہ  )

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان فتاویٰ رضویہ میں میزان الکبریٰ کے حوالےسےنقل کر تے ہیں:”سمعت سیدی علیا  الخواص رحمہ اللہ تعالیٰ یقول انما امر الشارع المصلی بالصلوۃ والسلام علی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی التشھد لینبہ الغافلین فی جلوسھم بین یدی اللہ عزوجل علی شھودنبیھم فی تلک الحضرۃ فانہ لایفار ق حضرۃ اللہ تعالیٰ ابدافیخاطبونہ بالسلام مشافھۃ “یعنی امام شعرانی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے سردار علی الخواص سے سنا کہ شارع نے نمازی کو تشہد میں نبی پا ک علیہ السلام پر درودو سلام پڑھنے کا اس لیے حکم دیا کہ  جولوگ اللہ عزوجل کے دربار میں غفلت کے ساتھ بیٹھتے ہیں ،  انہیں تنبیہ کردےکہ اس حاضری میں اپنے نبی علیہ السلام کو دیکھیں اس لیےکہ حضورکبھی اللہ پا ک کےدربا ر سے جدا نہیں ہوتے ، پس بالمشافہ حضور علیہ السلام پر سلام عرض کریں ۔(فتاویٰ رضویہ ،ج15،ص206،رضا فاونڈیشن  لاھور  )

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مرأۃ المنا جیح میں فرماتے ہیں :”السلام علیک پر ہر نمازی اپنے دل میں حضور کو حاضر جانے اور یہ جان کر سلام عرض کرےکہ میں حضور کو سلا م عرض کررہا ہوں ، حضور مجھےجواب دے رہے ہیں ۔“(مرأۃالمناجیح  ،ج2،ص91،ضیاءالقران پبلی کیشنز  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم