Aurat Shohar Ke Sath Dusre Mulk Chali Gai To Mayke Aur Sasural Mein Namaz Ka Hukum

عورت شوہر کے ساتھ مستقل دوسرے ملک چلی گئی، تو میکے و سسرال آنے پر نماز میں قصر کا حکم

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق: مفتی محمدہاشم خان عطاری   

فتوی نمبر:111

تاریخ اجراء: 28ربیع الثانی1442ھ/14دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ايك عورت ہندہ کی شادی فیصل آباد میں ہوئی اور وہ اپنے میکے کراچی سے رخصت ہو کر سسرال فیصل آباد مستقل آ گئی پھروہاں سے شوہر کے ساتھ مستقل انگلینڈ چلی گئی کہ اس نے اور اس کے شوہر نے فیصل آباد سے ترک وطن کا ارادہ کر لیا اور انگلینڈ میں شہریت حاصل کرلی اور دونوں کا اپنے بچوں کے ساتھ مستقل وہیں رہنے کا ارادہ ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ  ہندہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے اپنے بیٹے کے ساتھ پاکستان آ رہی ہے ، چھ سات دن کراچی رہے گی اور چھ سات دن سسرال فیصل آباد میں رہے گی، اس صورت میں ہندہ کے لیے کیا حکم ہے ،پاکستان میں کراچی و فیصل آباد میں سے کہاں وہ نماز قصر کرے گی اور اس کا وطن اصلی کون سا شہر کہلائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دریافت کی گئی صورت میں وہ کراچی اور فیصل آباد دونوں مقامات پر قصر نماز پڑھے گی، کیونکہ کسی مقام پر وہ مقیم نہیں ہوگی کہ ہر جگہ پندرہ دن سے کم ٹھہرے گی اور یہ دونوں شہر اب اس کے لیےوطن اصلی نہیں رہے کہ کراچی سے رخصت ہو کر جب سسرال فیصل آباد مستقل آگئی تو کراچی اس کا وطن اصلی نہ رہا ،پھر فیصل آباد سے ترک وطن کے ارادے  کے ساتھ مستقل انگلینڈ میں شفٹ ہو گئی ،تو فیصل آباد بھی اس کےلیے وطن اصلی نہ رہا ، بلکہ انگلینڈ کے جس شہر میں مستقل رہائش اختیار کر لی ،وہی اس کا وطن اصلی بن گیا اور وطن اصلی اپنی مثل وطن اصلی سے باطل ہوجاتا ہے، جبکہ پہلی جگہ سے ترکِ وطن کے ارادے کے ساتھ دوسری جگہ کو وطن بنایا ہو۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس کا میکا (کراچی)اور سسرال (فیصل آباد) اس کا وطن اصلی ہیں نہ ہی وطن اقامت ،تو وہ ان میں نماز قصر کرے (چار رکعات نمازِ فرض کی جگہ  دو رکعات فرض پڑھے) گی ۔

   وطن اصلی اپنی مثل وطن ہی سے باطل ہو تا ہے، یہ مسئلہ کئی متون ، شروح اور فتاویٰ میں مذکور ہے۔ اختصاراً چند ایک حوالے ملاحظہ فرمائیے ۔

   چنانچہ تنویر الابصار اور درمختار میں ہے :’’(الوطن الأصلي يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و)  بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه۔ ملخصاً‘‘یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا، جبکہ پہلی جگہ میں اس کے اہل و عیال باقی نہ رہیں، پس اگر پہلی جگہ اہل و عیال باقی ہوں ،تو وطن باطل نہیں ہوگا، بلکہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا ۔اپنے مثل کے علاوہ کسی اور سے وطنِ اصلی باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت اپنے مثل سے ، وطن اصلی سے اورسفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے اور اصول ان میں یہ ہے کہ چیز اپنی مثل سےاور اپنے سے اوپر کی چیزسے باطل ہوتی ہے، اپنے سے کم شے سے باطل نہیں ہوتی۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:”(قوله يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أولا، ولا خلاف في ذلك كما في المحيط ۔قهستاني، وقيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره نهر‘‘ یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا ،خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہواور اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، جیسا کہ محیط میں ہے۔ قہستانی۔ ماتن نے بمثلہ کی قید لگائی، کیونکہ اگر کوئی دوسری جگہ جانے کے ارادے سے منتقل ہوا، پھر اس کے لیے ظاہر ہوا کہ وہ کسی اور جگہ وطن بنائے، پھروہ پہلی جگہ سے گزرا، تو پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس نے ابھی اس کے علاوہ جگہ کو وطن نہیں بنایا ۔ نہر الفائق۔(رد المحتار،جلد 2،صفحہ  739،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتح القدیر میں ہے:’’والأصلي لا ينتقض إلا بالانتقال عنه واستيطان آخر كما قلنا لا بالسفر ولا بوطن الإقامة‘‘ یعنی وطن اصلی دوسری جگہ منتقل ہونے اور دوسری جگہ کو وطن بنا لینے سے ہی ٹوٹے گا۔جیسا کہ ہم نے کہا سفر اور وطن اقامت کے ساتھ نہیں ٹوٹے گا۔(فتح القدیر،جلد 2، صفحہ 41، مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں شرح  منیہ سےمنقول ہے :’’ لو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار وقيل تبقى۔ ملخصاً‘‘اگر کسی شخص کے گھر والے دو شہروں میں ہوں، تو دونوں میں سے جس میں بھی داخل ہو گا، مقیم ہو جائے گا ،اگر ایک میں اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا اور اس شہر میں اس کا مکان اور زمین باقی ہے، تو ایک قول یہ ہے کہ وہ اس کے لیے وطن نہیں رہا کہ اعتبارمکان کا نہیں، اہل کا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ وطن رہے گا۔(رد المحتار ، جلد2، صفحہ739، مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار کی مذکورہ عبارت کے جز ”وقيل تبقى“کے تحت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جد الممتار میں فرماتے ہیں :’’و الیہ اشار محمد فی الکتاب کذا فی الزاھدی ھندیہ أقول: يظهر للعبد الضعيف أن نقل الأهل والمتاع يكون على وجهين: أحدهما: أن ينقل على عزم ترك التوطن هاهنا، والآخر: لا على ذلك، فعلى الأول لا يبقى الوطن وطنا وإن بقي له فيه دور وعقار، وعلى الثاني يبقى فلیکن المحمل للقولین ،و بمثل ھذا یجری الکلام فی موت الزوجۃ فافھم ‘‘ یعنی(وطن رہے گا)اسی طرف امام محمد رحمۃ  اللہ علیہ نے کتاب میں اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ زاہدی میں ہے ،عالمگیری۔ میں کہتا ہوں ضعیف بندے کے لیے یہ ظاہر ہوا کہ اہل و متاع کو نقل کرنے کی دو صورتیں ہوں گی: (1)اس نے وہاں سے ترک وطن کے ارادے پر اہل و متاع کو منتقل کیا (2)ترک وطن کا ارادہ نہیں ہے ۔پس پہلی صورت میں وطن وطنِ اصلی نہیں رہے گا اگرچہ اس میں گھر اور زمین باقی ہو اور دوسری صورت میں وطن اصلی باقی رہے گا۔پس چاہیے کہ دونوں اقوال کے لیے ایک محمل ہو،اور اسی کی مثل کلام بیوی کی موت میں جاری ہو گا۔ پس تو سمجھ جا ۔ (جد الممتار،جلد 03،صفحہ 572،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

     بہار شریعت  میں ہے :’’عورت بیاہ کر سسرال گئی اور یہیں رہنے سہنے لگے، تو میکا اس کے ليے وطنِ اصلی نہ رہا یعنی اگر سسرال تین منزل پر ہے وہاں سے میکے آئی اور پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کی، تو قصر پڑھے اور اگر  میکے رہنا  نہیں چھوڑا ،بلکہ سسرال عارضی طور پر گئی ،تو میکے آتے ہی سفر ختم ہوگیا نماز پوری پڑھے۔‘‘(بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 751،752،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم