Ayat Sajda Ke Baad Sajda Na Kiya Akhir Mein 3 Sajde Kar liye Tu

آیت سجدہ کے بعد سجدہ نہ کیا ، آخرمیں تین سجدے کر دئیے تو ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13326

تاریخ اجراء: 23رمضان المبارک1445 ھ/03اپریل 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ نمازِ تراویح میں حافظ صاحب سجدہ تلاوت کرنا بھول گئے اور مزید  آگے تلاوت جاری رکھی، پھر یاد آنے پر نماز کے آخر میں تین سجدے کرکے بغیر سجدہ سہو کیے ہی نماز مکمل کرلی۔

   دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس صورت میں نمازِ تراویح درست ادا ہوگئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  نمازِ تراویح واجب الاعادہ ہوگئی، جس  کا اعادہ کرنا امام اور مقتدیوں پر لازم ہے۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نماز میں آیتِ سجدہ پڑھی ہو تو فوراً ( یعنی تین آیات سے زیادہ پڑھنے سے پہلے پہلے) سجدہ تلاوت کرنا واجباتِ نماز میں سے ہے، پس اگر نمازی سجدہ تلاوت کرنا بھول جائے اور تین آیات سے زیادہ مقدار تاخیربھی  پائی جائے تو اب حکمِ شرع یہ ہے کہ جب تک وہ نمازی حرمتِ نماز میں ہو،  یاد آنے پر  سجدہ تلاوت ادا کرلے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے ، اس صورت میں نماز درست ادا ہوجائے گی۔

    جبکہ صورتِ مسئولہ میں حافظ صاحب نے بغیر سجدہ سہو کیے ہی نماز مکمل کردی، اور سجدہ سہو واجب ہونے کے باوجود ادا نہ کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں نمازِ تراویح واجب الاعادہ ہوگئی، جس کا اعادہ کرنا سب پر لازم ہے۔

   نمازی سجدہ تلاوت بھول جائے تو سجدہ تلاوت ادا کرے اور سجدہ  سہو بھی کرے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے: ”وفي الولوالجية المصلي إذا تلا آية السجدة ونسي أن يسجد لها ثم ذكرها وسجدها وجب عليه سجود السهو ؛ لأنه تارك للوصل وهو واجب وقيل : لا سهو عليه والأول أصح ، كذا في التتارخانية۔“ یعنی ولوالجیہ میں ہے کہ نمازی نے آیتِ سجدہ تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کرنا بھول گیا پھر اسے یاد آیا اور اس نے سجدہ تلاوت کرلیا تو اُس پر سہو کے سجدے واجب ہیں، کیونکہ اُس نے بلا تاخیر سجدہ تلاوت کرنے کوسہواً  ترک کیا ہے اور یہ واجب ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس پر سہو نہیں ہے لیکن پہلا قول اصح ہے، جیسا کہ تاتارخانیہ میں مذکور ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 126، مطبوعہ پشاور)

   نماز میں فی الفور سجدہ تلاوت کرنا نماز کے واجبات میں سے ہے۔ جیسا کہ درِ مختار   میں  ہے: ”فعلى الفور لصيرورتها جزءا منها ويأثم بتأخيرها ويقضيها ما دام في حرمة الصلاة ولو بعد السلام "فتح "۔“ یعنی نماز میں فی الفور سجدہ تلاوت کرنا واجباتِ نماز میں سے ہے کہ نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے کے سبب یہ سجدہ تلاوت اُس نماز کا جزء بن چکا، لہذا اس کی ادائیگی میں تاخیر کے سبب بندہ گنہگار ہوگا ۔  اُس سجدے کی قضا کرے جب تک حرمتِ نماز میں ہے اگرچہ سلام کے بعد ہی ادا کرے "فتح" ۔

   (فعلى الفور) کے تحت رد المحتار  میں  ہے: ” جواب شرط مقدر تقديره فإن كانت صلوية فعلى الفور ح ثم تفسير الفور عدم طول المدة بين التلاوة والسجدة بقراءة أكثر من آيتين أو ثلاث على ما سيأتي "حلية"۔ (قوله ويأثم بتأخيرها إلخ) لأنها وجبت بما هو من أفعال الصلاة. وهو القراءة وصارت من أجزائها فوجب أداؤها مضيقا كما في البدائع ولذا كان المختار وجوب سجود للسهو لو تذكرها بعد محلها كما قدمناه في بابه عند قوله بترك واجب فصارت كما لو أخر السجدة الصلبية عن محلها فإنها تكون قضاء ۔“ یعنی یہ عبارت شرط مقدر کا جواب ہے اس کی مکمل عبارت یوں بنے گی کہ اگر نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کی تو نمازی پر فی الفور آیتِ سجدہ کرنا لازم ہے "حلبی" پھر فوراً کی تفسیر یہ ہے کہ تلاوت اور سجدے کے درمیان دو یا تین آیات کی قراءت سے زائد مقدار وقفہ نہ ہو، جیسا کہ عنقریب یہ بات آئے گی "حلیہ"۔ (قوله ويأثم بتأخيرها إلخ) کیونکہ سجدہ تلاوت افعالِ نماز کے سبب واجب ہوا اور وہ قراءت ہے،  لہذا یہ سجدہ تلاوت نماز کا جزء بن گیا ہےپس  اسے بغیر تاخیر کے ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ بدائع میں  ہے، یہی وجہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اگر سجدہ تلاوت اپنے محل کے بعد یاد آیا تو نمازی پر سجدہ سہو واجب ہوگا جیسا کہ یہ بات ہم نے ماقبل سہو کے باب میں "بترك واجب" کے تحت بیان کی ہے۔  یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ نمازی نماز کے سجدے کو اُس کے محل سے مؤخر کردے تو وہ قضاء ہوجاتا ہے۔(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02، ص704، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ شامی علیہ الرحمہ مزید ایک دوسرے مقام پر نقل فرماتے ہیں: ”لو كان عليه تلاوية وصلبية يقضيهما مرتبا، وهذا يفيد وجوب النية في المقضي من السجدات كما ذكره في الفتح، ثم يتشهد ويسلم ثم يسجد للسهو۔“ یعنی اگر نمازی پر سجدہ تلاوت اور نماز کا سجدہ رہتا ہو تو وہ ان دونوں سجدوں کی ترتیب وار قضاء کرے، اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ قضاء سجدوں کی ادائیگی میں نیت ضروری ہے جیسا کہ اسی بات کو صاحبِ فتح نے ذکر فرمایا ہے، پھر نمازی تشہد پڑھے اور سلام پھیرے پھر سہو کے سجدے کرے ۔(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02، ص674، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ کرنا بھول گیا تو سجدۂ تلاوت ادا کرے اور سجدۂ سہو کرے ۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص  711، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ  مزید ایک دوسرے مقام پرنقل فرماتے ہیں:” سجدۂ تلاوت نماز میں فوراً کرنا واجب ہے تاخیر کریگا گنہگار ہو گا اور سجدہ کرنا بھول گیا تو جب تک حرمت نماز  میں ہے کرلے، اگرچہ سلام پھیر چکا ہو اور سجدۂ سہو کرے۔ تاخیر سے مراد تین آیت سے زیادہ پڑھ لینا ہے کم میں تاخیر نہیں ۔(بہار شریعت، ج01، ص733، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سجدہ سہو واجب ہونے کے باوجود سجدہ نہ کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:” اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدۂ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔(بہار شریعت، ج01، ص708، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب، اور اگر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔(فتاوٰی  امجدیہ، ج01، ص 276، مکتبہ رضویہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم