Azan Ke Waqt Kam Kaj Karna kaisa

اذان کے دوران کام کاج کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12292

تاریخ اجراء:        15 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/15جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اذان کے وقت بات چیت کرسکتے ہیں یا کوئی کام کاج کرسکتے ہیں؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جب اَذان اور اقامت ہو تو اتنی دیر کے ليے بندہ سلام، کلام، تمام کام کاج روک دے اور اَذان کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ  دورانِ تلاوت اگر  اذان شروع ہوجائے تو تلاوت روک کر اذان کو سنے اور اس کا جواب دے۔ لہذا ممکنہ صورت میں اپنی گفتگو اور کام کاج وغیرہ روک کر زبان سے اذان کا جواب دینے کا پورا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ احادیثِ مبارکہ  میں وارد اس کے متعلق  فضائل حاصل ہوسکیں۔

   البتہ شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے، لہذا اگر کوئی شخص زبان سے اذان کا  جواب نہ دے جب بھی وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا۔ نیز بعض رخصت کے مواقع بھی موجود ہیں، جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق حیض و نفاس والی عورت، خطبہ سننے والے، نماز میں مشغول، جماع، قضائے حاجت، کھانے پینے اور علمِ دین سیکھنے سکھانے میں مشغول افراد پر اذان کا جواب نہیں۔

   واضح رہے کہ اذان کا جواب نہ دینا محرومی کاسبب بھی ہے، جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جو اَذان کے دوران گفتگو میں مشغول رہے تو معاذ اللہ!  اس پر خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے، لہذا حتی الامکان اذان کے دوران کام کاج کرنے اور گفتگو وغیرہ کرنے سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔

   اذان و اقامت کے دوران کسی کام کاج میں مشغول نہ ہوا جائے۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’ ولا ينبغي أن يتكلم السامع في خلال الأذان والإقامة ولا يشتغل بقراءة القرآن ولا بشيء من الأعمال سوى الإجابة ، ولو كان في القراءة ينبغي أن يقطع ويشتغل بالاستماع والإجابة۔ كذا في البدائع ‘‘ یعنی سامع اذان اور اقامت کے دوران بات چیت نہ کرے، نہ ہی قرآن کی تلاوت میں مشغول ہو، نہ ہی اذان کے جواب کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ اور اگر وہ تلاوت کررہا ہو تو چاہیے کہ وہ تلاوت روکے اور اذان سننے اور اس کے جواب دینے میں مشغول ہو، جیسا کہ بدائع میں مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 57،مطبوعہ پشاور)

   زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اس کا ترک گناہ نہیں۔ جیسا کہ بحر الرائق میں ہے:”في فتاوى قاضي خان إجابة المؤذن فضيلة وإن تركها لا يأثم ، وأما قوله عليه الصلاة والسلام { من لم يجب الأذان فلا صلاة له } فمعناه الإجابة بالقدم لا باللسان فقط ۔۔۔۔ولا يقرأ السامع ولا يسلم ولا يرد السلام ولا يشتغل بشيء سوى الإجابة ولو كان السامع يقرأ يقطع القراءة ويجيب وقال الحلواني الإجابة بالقدم لا باللسان حتى لو أجاب باللسان ولم يمش إلى المسجد لا يكون مجيباً “یعنی فتاوٰی قاضی خان میں ہے کہ اذان کے  جواب دینے میں فضیلت ہے اور اگر کوئی شخص اذان کا جواب زبان سے نہ دے تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ بہر حال سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "جو اذان کا جواب نہ دے تو اس کی کوئی نماز نہیں" اس سے مراد اذان کا جواب قدم سے دینا ہے نہ کہ فقط زبان سے اذان کا جواب دینا۔۔۔۔۔سامع اذان کے دوران تلاوت نہ کرے، نہ ہی کسی کو سلام کرے اور نہ ہی سلام کا جواب دے، نہ ہی اذان کے جواب کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ اور اگر سامع قرآن کی تلاوت کررہا ہو تو وہ تلاوت روکےاور اذان کا جواب دے۔ امام حلوانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اجابت بالقدم کا حکم ہے نہ کہ فقط اجابت باللسان کا، لہذا اگر کوئی  شخص زبان سے اذان کا جواب دے اور چل کر مسجد کی طرف نہ جائے تو اس صورت میں وہ مجیب نہ ہوگا۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ،  ج 02، ص 451-450، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   فتاوٰی شامی میں ہے:’’قال الحلوانی: ان الاجابۃ باللسان مندوبۃ و الواجبۃ ھی الاجابۃ بالقدم۔‘‘ یعنی امام حلوانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ زبان سے اذان کا جواب دینا مستحب ہے البتہ جس پر جماعت واجب ہو اس کے لیے قدم سے جواب دینا یہ واجب ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 80،مطبوعہ کوئٹہ)

   کن مواقع پر اذان کا جواب نہیں اس کے متعلق درِ مختار میں ہے: ’’ (من سمع الاذان) ولو جنباً لا حائضاً و نفساء و سامع خطبۃ و فی صلاۃ جنازۃ و جماع، و مستراح و اکل و تعلیم علم و تعلمہ۔‘‘ یعنی جو اذان سنے تو اس کا جواب دے اگر چہ وہ جنبی ہو مگر حیض و نفاس والی عورت، خطبہ سننے والا، نمازِ جنازہ میں مشغول، جماع، قضائے حاجت، کھانے پینے اور علمِ دین سیکھنے سکھانے میں مشغول افراد پر اذان کا جواب نہیں۔      (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 81،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جنب بھی اَذان کا جواب دے۔ حیض و نفاس والی عورت اور خطبہ سننے والے اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے اور جو جماع میں مشغول یا قضائے حاجت میں ہو، ان پر جواب نہیں۔ جب اَذان ہو، تو اتنی دیر کے ليے سلام کلام اور جواب سلام، تمام اشغال موقوف کر دے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں اَذان کی آواز آئے، تو تلاوت موقوف کر دے اور اَذان کو غور سے سُنے اور جواب دے۔ یوہیں اِقامت میں۔ جو اَذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے، اس پر معاذ اﷲ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔ ( بہار شریعت، ج 01، ص 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم