Nabaligh Bachon Ka Baron Ki Saf Mein Khara Hone Ka Hukum?

نابالغ بچوں کا بڑوں کی صف میں کھڑا ہونے کا حکم

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:fmd:1255

تاریخ اجراء:03جمادی الثانی1440ھ/09فروری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سمجھدار اورناسمجھ بچےبالغوں کی صف میں کھڑےہوجائیں اورنمازشروع کردیں ، توبعد میں آنے والےنمازی کاان کو صف سےپیچھےکرناکیساہے؟

سائل:غلام سرور(خداکی بستی،سرجانی ٹاؤن،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جماعت کے اندربالغوں کی صف میں شامل ہونے والے بچےدو قسم کے ہیں اورہرایک  کاعلیحدہ حکم ہے۔

     (1)بالکل ناسمجھ جونمازپڑھناہی نہیں جانتا۔ایسابچہ شرعی طورپرنمازکااہل ہی نہیں ہے، اگروہ صف میں کھڑاہو، توصف بھی قطع ہوگی اور قطعِ صف ناجائزوگناہ ہے ، لہٰذااگرایساناسمجھ بچہ بالغوں کی صف میں کھڑاہو،چاہے نمازشروع کرچکاہویانہیں بہرصورت اس کوشفقت کےساتھ یاتو پچھلی صف میں کردیاجائےیاجونمازی آتاجائے ، وہ اس کوسائیڈمیں کرکےاس کی جگہ خودکھڑاہوتاجائے۔

     2))سمجھداربچہ جونمازسے واقف ہو۔یہ بچہ شرعی طورپرنمازکااہل ہے اوراس کی نمازدرست ہے۔یہ  اگربالغوں کی صف میں کھڑا ہوکرنمازشروع کردے ، تواسےصف میں ہی کھڑارہنےدیاجائے، وہاں سے ہٹاکراس کوسائیڈ میں یاپیچھے نہ کیاجائے، بلکہ نمازشروع کرنے سے پہلے ایساسمجھداربچہ ایک ہی ہو، تواسے بالغوں کی صف میں کھڑے ہونے کی واضح طور پر اجازت ہےاوراس کے کھڑا ہونے سے صف بھی قطع نہیں ہوتی، البتہ اگرایسےہی سمجھداربچےایک سے زائدہوں ، توا ن کونمازشروع کرنے سے پہلےہی شفقت ومحبت سے پیچھےکردیاجائےکہ بچوں کی صف سب سے آخرمیں بنانے کاحکم ہے۔

     فتاوی مصطفویہ میں مفتی اعظم ہندفرماتے ہیں:”بچوں کوپیچھے کھڑاکرناچاہیے ۔اگرکوئی بچہ یاچندبچے یاسب جوآئے ، وہ اگلی صف میں شامل ہوگئے، تواس سے نمازمیں کوئی خلل نہ آئے گا ، مگربچوں  کواس سے روکاجائے۔ جوبچے 9 سال یااس سے کم کےہوں انھیں زیادہ تاکیدپیچھے کھڑے ہونے کی کی جائےاورجوناسمجھ بچے نہ ہوں ، نمازسے پورے واقف ہوں ، انھیں بھی پیچھے کھڑاہوناچاہیے اگرچہ 9سال  سے زیادہ کےہوں ۔ اگراگلی صف میں  ایسے بچے کھڑے ہوں ، توجوبالغ نہیں ، مگرقریب البلوغ ہوں ، توناسمجھ بچوں کی طرح برانہیں ، باقی ہےیہی بہترکہ اگلی صف مردوں کی ہواس کے پیچھے ان کی جوابھی مردنہیں۔۔۔۔(مزید آگے ارشاد فرماتے ہیں)۔۔۔۔بالکل ناسمجھ بچے اگربیچ صف میں ہوں گے ، تویہ براہوگا۔ جیسے کچھ کچھ فاصلہ سے آدمی کھڑےہوں  کہ یہ برااورگناہ بھی ہے ۔ حدیث میں فرمایا : تراصوا الصفوف  وسدوا الخلل (یعنی صفوں میں خوب مل کرکھڑے ہواورصفوں کےخلا کوبندکرو)اورچھوٹے بچوں کے کھڑے ہونے میں یہ بات سدّ خلل گویا حاصل نہ ہوگی۔اس لیے اگرکوئی بچہ  کھڑاہوجائے ، تویااسے پیچھےکردیاجائے یا جوآتاجائے اسے ایک طرف ہٹاکراس کی جگہ خودکھڑاہوتاجائے ، مگرجبکہ وہ بچہ نمازسے واقف اورایساہوگویامرد، قریب البلوغ اسے نہ ہٹایا جائےکہ جو ادامیں بلوغ کے قریب ہے گویاوہ بالغ ہےاوراس بارے میں وہ بالغ مرتبہ رجال ہوجاناچاہئے(ملقتطا از فتاوی مصطفویہ، ص216،شبیربرادرز،لاھور)

     امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  سے سوال ہواکہ سمجھ وال لڑکا آٹھ نوبرس کا، جونماز خوب جانتاہے ، اگرتنہا ہو ، تو آیا اسے یہ حکم ہے کہ صف سے دور کھڑا ہو یا صف میں بھی کھڑا ہوسکتاہے؟

     آپ علیہ الرحمۃ نےارشادفرمایا:”صورت مستفسرہ میں اسے صف سے دوریعنی بیچ میں فاصلہ چھوڑکر کھڑاکرنا تو منع ہے ۔ فان صلاۃ الصبی الممیز الذی یعقل الصلاۃ صحیحۃ قطعاوقدامرالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بسد الفرج والتراص فی الصفوف و نھی عن خلافہ بنھی شدید (کیونکہ وہ بچہ جوصاحبِ شعور ہو اور نماز کوجانتا ہو ، اس کی نماز بالیقین صحیح ہے اورنبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صف کے رخنہ کو پُر کرنےاور اس میں مل کر کھڑے ہونے کاحکم دیاہے اوراس کے خلاف سے سخت منع فرمایا ہے)اور یہ بھی کوئی ضروری امرنہیں کہ وہ صف کے بائیں ہی ہاتھ کوکھڑاہو۔ علماء اسےصف میں آنےاورمردوں کےدرمیان کھڑے ہونےکی صاف اجازت دیتے ہیں۔درمختارمیں ہے :لوواحداً دخل فی الصف “(یعنی اگر بچہ اکیلا ہو ، توصف میں داخل ہوجائے)مراقی الفلاح میں ہے : ان لم یکن جمع من الصبیان یقوم الصبی بین الرجال (اگر بچے زیادہ نہ ہوں ، تو بچہ مردوں کے درمیان کھڑا ہوجائے)بعض بے علم جو یہ ظلم کرتے ہیں کہ لڑکا پہلے سے داخلِ نماز ہے، اب یہ آئے ، تواسے نیت بندھا ہواہٹاکر کنارےکردیتے اور خود بیچ میں کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہ محض جہالت ہے ۔ “(ملتقطااز فتاوی رضویہ،ج،7ص51،رضا فاؤنڈیشن لاهور)

     صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”مرد اور بچے اور خنثیٰ اور عورتیں جمع ہوں ، تو صفوں کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے مردوں کی صف ہو ، پھر بچوں کی ، پھرخنثیٰ کی ، پھر عورتوں کی اور بچہ تنہا ہو ، تو مردوں کی صف میں داخل ہو جائے۔“ (بھارِشریعت،ج01،ص586،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

     تنبیہ !ایسےناسمجھ بچے ، جن سےنجاست کاظنِ غالب ہو،مسجدمیں انہیں لانامکروہ تحریمی یعنی ناجائز و گناہ ہےاوراگرنجاست کااحتمال اورشک ہو، تو مکروہ تنزیہی ہے یعنی گناہ تو نہیں ، مگر بچنا بہتر ہے ۔

     نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم  وشراءکم و بیعکم و خصوماتکم ورفع اصواتکم واقامۃ حدودکم وسل سیوفکمترجمہ:اپنی مساجد کو اپنے بچوں ،پاگلوں ،خرید وفروخت، جھگڑوں،آوازیں بلندکرنے، حدود قائم کرنےاورتلوارکھینچنے سے بچاؤ۔(سنن ابن ماجہ،ابواب المساجد،باب ما یکرہ فی المساجد ،ص132،المکتبۃالعصریۃ،بیروت)

     درمختارمیں ہے:والعبارۃبین الھلالین من ردالمحتارملخصا”یحرم(والمراد بالحرمۃکراھۃالتحریم لظنیۃالدلیل)ادخال صبیان و مجانین حیث غلب تنجیسھم والا فیکرہ(أی تنزیھا)“یعنی جب بچو ں اور پاگلوں کامسجد کو ناپاک کرنے کاگمان غالب ہو ، تو ان کو مسجد میں لاناحرام (یعنی مکروہ تحریمی ہےکیونکہ دلیل(یعنی وہ حدیث جس  میں بچوں اورپاگلوں سے مسجد کو بچانے کا حکم ہے)ظنی ہےاوراگرمسجدکی نجاست کاگمان غالب نہ ہو، تومکروہ تنزیہی ہے۔(درمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ،ج02،ص518،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم