Do Shehron Ki Abadi Mil Jaye To Namaz Me Qasar Ka Hukum

دوشہروں کی آبادی مل جائے ،تونماز میں  قصر کا حکم

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Jtl-0210

تاریخ اجراء: 12جمادی الأولی1443 ھ/ 17دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو مستقل شہرجو اب مل گئے ہیں، اگرایک کا شہری دوسرے شہر کی جانب سے سفرِ شرعی کا آغاز کرے، تو کیا قصر کرنے کے لیے اسے دوسرا شہر بھی پار کرنا ہوگا یااپنے شہر کی آبادی سے نکلتے ہی وہ قصر کرے گا، جبکہ ابھی وہ متصل شہر  میں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسے دو شہر جو   عرفاً قانوناً مستقل ہوں اور ان کی آبادی آپس میں مل گئی ہو ،اگران میں سے ایک  کا شہری دوسرے ملے ہوئے شہرکی جانب سے سفر شرعی کا آغاز کرے ،تو اپنے شہر کی حدود سے نکلتے ہی وہ قصر کرے گا، اگر چہ وہ دوسرے شہرمتصل کی آبادی میں ہو، کیونکہ سفر شرعی  وقصر کے لیے اپنے شہر کی آبادی سے نکلنے کا اعتبار ہے اور جو اپنے شہر سے متصل آبادی اسی شہر کے تابع ہو،تو اس سے بھی نکل جانا ضروری ہے،کیونکہ یہ اسی شہر کے حکم میں ہوتی ہے، جبکہ ایسے  دو شہر جو دونوں مستقل شہر ہوں تو   عرفاً  ایک سے دوسرے  میں داخل ہونے والا اپنے شہر کی آبادی سے نکلنے والا ہی کہلاتا ہےاور شرعاً مسافر بننے اور قصر شرعی کرنے کے لیے یہی مدار ہے کہ اپنے شہر کی آبادی سے نکل جائے، لہٰذا  اپنےشہر سے خارج ہوتے ہی وہ قصر کرے گا، اگر چہ دوسرے شہر میں موجود ہو۔

   مسافر بننے اور قصر کرنے کے لیے اپنے شہر اور اس کی آبادی سے نکلنے کا اعتبار ہے ،فتاوی ہندیہ میں ہے : ”قال محمدرحمه اللہ تعالى:يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر، كذا في المحيط “ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: آدمی جب اپنے شہر سے نکل جائے اور اس کےشہر کے گھر پیچھے رہ جائیں، تو اس وقت وہ قصر شروع کرے گا ، ایسا ہی محیط میں ہے ۔ (الفتاوى الهندية ، جلد1، صفحہ139، دار الفکر، بیروت)

      شہر اور اس کی آبادی سے نکلنے کا اعتبار ہے نہ کہ  دوسرے شہر کی ،جیسا کہ فتاوی تاتارخانیہ کی اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے:”وفی الغياثية:والمعتبر من الخروج أن یجاوز المصر وعمراناتہ هو المختار وعليه الفتوى۔۔۔۔۔فعرفنا أن الشرط أن یتخلف عن عمرانات المصر لا غیر“ ترجمہ: اور غیاثیہ میں ہے:نکلنے میں معتبر یہ ہے کہ (اپنے )شہر اور اس کی آبادی سے نکل جائے۔ یہی مختار ہے اور اسی پر فتوی ہے۔۔۔۔تو ہمیں معلوم ہوا کہ شرط شہرکی آبادی کو پیچھے چھوڑنا ہے، نہ کہ غیر۔    (فتاوی تاتار خانیہ ،جلد2،صفحہ494،مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر یہ سوال کیا جائے کہ شہر سے متصل اگر کوئی بستی ہو تو  قصر کرنے کے لیے اس سے بھی تجاوز کرنا ضروری ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جب آبادی متصل ہو، چاہے دوسرے شہرکی ہی ہو، تو بھی قصر کے لیے اس کی آبادی سے تجاوز ضروری ہوگا،جیسا کہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی قاضی خان کے حوالے سے لکھتے ہیں :” إن كان بينه وبين المصر أقل من قدر غلوة ولم يكن بينهما مزرعة يعتبر مجاوزة الفناء أيضا، وإن كان بينهما مزرعة أو كانت المسافة بينه وبين المصر قدر غلوة يعتبر مجاوزة عمران المصر هذا، وإذا كانت قرية أو قرى متصلة بربض المصر لا يقصر حتى يجاوزها“­ترجمہ: اگر شہر کی فناء اور شہر کے درمیان ایک غلوہ (چار سو گز)کی مقدار سے کم فاصلہ ہے اور درمیان میں زراعت وکھیتی نہیں ہے، تو اس فناء سے بھی آگے گزر جانے کا اعتبار ہوگا  اور اگر درمیان  میں کھیتی ہے یا فناء شہر  اور شہر کے درمیان ایک غَلوہ سے زیادہ  فاصلہ ہے تو شہر کی آبادی سے باہر ہوجانے کا اعتبار ہے  اور اگر شہر کی حدود کے ساتھ ایک بستی یا زیادہ بستیاں متصل ہیں تو اب وہ قصر نماز نہیں پڑھ سکتا جب تک وہ ان بستیوں سے آگے نہ نکل جائے۔ (فتح القدير، جلد2، صفحہ 33، دار الفکر، بیروت)

   تو اس کا جواب یہ ہے کہ  شہر سے متصل بستیاں  چونکہ شہر کے تابع ہوتی ہیں، تو وہ شہر کے حکم میں ہوتی ہیں، لیکن ہماری  صورت میں دوسرا شہر  مستقل ہے، وہ پہلے کے  تابع نہیں ،لہٰذا اس میں  متصل بستیوں والے احکام نہیں ہوں گے ،نیز اپنے شہر سے دوسرے متصل شہر میں جانے والا اپنے شہر سے خارج کہلاتاہے اور یہی قصر کرنے کا مدار ہے ۔در مختار  میں ہے:من خرج من عمارۃ موضع إقامتہترجمہ:جو اپنے رہائشی مقام کی آبادی سے نکل جائے۔

     جو شے کسی شہر سے متصل، شہر کے تابع ہو،وہ شہر کے حکم میں ہوتی ہےاور ا س سے تجاوز قصر کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جو شے متصل ہو اگر وہ شہر کے تابع نہ ہو،  تو وہ شہر کے حکم میں نہیں ،اگر چہ اس شہر کے لوگ وہاں سال بھر رہتے ہوں،جیسا کہ ردالمحتار میں ہے:أشار إلی أنہ یشترط مفارقۃ ما کان من توابع موضع الإقامۃ کربض المصر وھو ما حول المدینۃ من بیوت  و مساکن فإنہ فی حکم المصر وکذاالقری المتصلۃ بالربض فی الصحیح بخلاف البساتین ولو متصلۃ بالبناء لأنھا لیست من البلدۃ ولو سکنھا أھل البلدۃ فی جمیع السنۃ أو بعضھاترجمہ:اس طرف اشارہ کیا کہ جو رہائش گاہ کے توابع ہیں، جیسا کہ شہر کا گرد و نواح یعنی جو شہر کے  اردگرد گھر اور رہائش گاہیں ہوتی ہیں، کیونکہ یہ شہر کے حکم میں ہوتی ہیں، اسی طرح سے شہر کے ارد گرد جو بستیاں شہر سے متصل ہوتی ہیں، صحیح قول کے مطابق(وہ بھی شہر کے حکم میں ہیں، کیونکہ وہ شہر کے تابع ہیں) بخلاف  کھیتوں اور باغات   کے ، اگر چہ وہ آبادی سے متصل ہوں، کیونکہ وہ شہر میں سے نہیں، اگر چہ اس شہر کےافراد سال بھر یا سال کا کچھ عرصہ وہاں سکونت پذیر رہیں۔ (در مختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ121، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

      جیسے کوفہ اور حیرہ کہ ان دونوں شہروں کی آبادی  آپس میں متصل ہے، جس کی تصریح مبسوط سرخسی میں یوں ہے:’’ وكذلك فيما بين الحيرة والكوفة كان يندر ذلك لكثرة العمران واتصال عمران أحد الموضعين بالموضع الآخر‘‘ ترجمہ:اوراسی طرح حیرہ اورکوفہ کے درمیان ڈاکا  ڈالنے کاحکم ہے اوران کے درمیان ڈاکا نادراً ہی پڑے گاآبادی کی کثرت کی وجہ سے اوردونوں مقامات میں سے ایک کی آبادی دوسرے کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے ۔ (المبسوط للسرخسی،باب قطاع الطریق،جلد09،صفحہ201،بیروت)

   اسی طرح فتح القدیرمیں دونوں کی آبادی کے متصل ہونے کی صراحت یوں ہے:’’ (قوله: ومن قطع الطريق ليلا أو نهارا في المصر أو بين الكوفة والحيرة)وهي منزل النعمان بن المنذر قريب من الكوفة بحيث يتصل عمران إحداهما بالأخرى ‘‘ ترجمہ: صاحب ہدایہ کاقول ہے :اورجس نے دن یارات میں شہرمیں ڈاکا  ڈالایاکوفہ وحیرہ کے درمیان ڈاکا ڈالا  ،اورحیرہ نعمان بن منذرکی منزل ہے اوریہ کوفہ کے اس طرح قریب ہے کہ ان میں سے ایک آبادی دوسرے کے ساتھ متصل ہے ۔ (فتح القدیر،باب قطع الطریق،ج05،ص431،بیروت)

   اور کوفہ اور حیرہ کے ملے ہوئے  ہونے کے باوجودجب کوئی حیرہ سے سفر شرعی پر نکلے اور کوفہ سے گزرے ،تو کوفہ میں وہ مسافر ہوگا اور قصر کرے گا ،جیسا کہ مبسوط سرخسی میں یوں ہے :’’قال: (خراساني قدم الكوفة فأقام بها شهرا ثم خرج منها إلى الحيرة فوطن نفسه على إقامة خمسة عشر يوما ثم خرج منها يريد خراسان ويمر بالكوفة، فإنه يصلي ركعتين)؛ لأن وطنه بالكوفة كان وطنا مستعارا فانتقض بمثله۔۔۔حين توطن بالحيرة خمسة عشر يوما كان هذا وطنا مستعارا له فانتقض به وطنه بالكوفة والتحق بمن لم يدخلها قط فلهذا يصلي بها ركعتين‘‘ترجمہ:امام محمدعلیہ الرحمۃ نے فرمایا:کوئی خراسانی کوفہ آیا،تووہ ایک مہینا رہا،پھر وہاں سے حیرہ کی طرف نکلا،تووہاں پندرہ دن رہنے کی نیت سے اسےاپناوطن بنایا،پھروہاں سے خراسان کے ارادے سے نکلااورکوفہ سے گزرا،تووہ دورکعتیں اداکرے گا،کیونکہ کوفہ میں اس کاعارضی وطن تھا،جواس کی مثل کے ساتھ ختم ہوگیا،جب اس نے حیرہ  کو پندرہ دن کے لیے وطن بنایا،تویہ اس کاعارضی وطن تھا،پس اس کی وجہ سے اس کاکوفہ کاوطن ختم ہوگیااوروہ اس کی طرح ہوگیاجوکوفہ میں کبھی داخل ہی نہیں ہوا،پس اسی وجہ سے وہ کوفہ میں دورکعتیں اداکرے گا۔ (المبسوط للسرخسی،باب صلوۃ المسافر،جلد01،صفحہ253،بیروت)

   اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر کسی مسافر نے دو جگہوں پر15 دن قیام کرنے کی نیت کی ، تو فقہاء فرماتے ہیں اگر یہ دونوں جگہیں الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہیں، تو پھر اس کی اقامت درست نہیں ،بلکہ یہ مسافر ہی رہے گا اور اگر ایک جگہ دوسری کے تابع ہے، تو پھر اس کی نیت درست ہے کہ اب یہ ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے ، چنانچہ  درر شرح غرر میں ہے :”(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي من نصف شهر (أو فيه) لكن (بموضعين مستقلين) كمكة ومنى فإنه يقصر إذ لا يصير مقيما فأما إذا تبع أحدهما الآخر بأن كانت القرية قريبة من المصر بحيث تجب الجمعة على ساكنها فإنه يصير مقيما بنية الإقامة فيهما فيتم بدخول أحدهما؛ لأنهما في الحكم كموضع واحد  ملتقطا ترجمہ: لہٰذا مسافر نے اگرآدھے ماہ سے  کم رہنے کی نیت کی ،تو وہ قصر نماز پڑھے گا اور اگر آدھا ماہ رکنے کی نیت کی، لیکن دو مستقل جگہوں پر رکنے کی نیت ہے، جیسے مکہ اور منیٰ تو اب یہ قصر کرے گا ،کیونکہ وہ مقیم نہیں کہلائے گا۔ بہر حال اگر دونوں جگہوں میں سے ایک جگہ دوسرے کے تابع ہے ،مثلا: ایک بستی شہر سے اتنا قریب ہے کہ بستی کے لوگوں پر( شہر میں آکر )جمعہ پڑھنا واجب ہوتا ہے ،تو اب  یہ شخص ان دونوں جگہوں پر رکنے کی نیت کرنے سے بھی مقیم ہو جائے گا اور کسی ایک میں بھی داخل ہوگیا، تو پوری نماز پڑھے گا ،کیونکہ یہ دونوں ایک جگہ کے حکم میں ہیں ۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام، جلد1، صفحہ 133، دار احیاء الکتب العربیۃ)

   نہر الفائق میں ہے : (لا) يتم إذا نوى الإقامة (بمكة ومنى) ونحوهما من مكانين كل منهما أصل بنفسه.... بخلاف ما إذا كان أحدهما تبعًا للآخر، كالقرية إذا قربت من المصر بحيث تجب الجمعة على ساكنها، لأنها في حكم المصر “ترجمہ: اگر اس نے مکہ اور منیٰ  یا اس طرح کی ایسی دو جگہوں میں پندرہ  دن رہنے کی نیت  کی کہ ان میں سے ہر ایک فی نفسہ مستقل ہے ،تو اب یہ شخص پوری نمار نہیں پڑھے گا ، بخلاف اس کے کہ اگر ان میں سے ایک جگہ دوسرے کے تابع ہو  ،جیسے ایک بستی جو شہر سے بالکل اتنا قریب ہے کہ بستی والوں پر جمعہ واجب ہوتا ہے (تواس صورت میں یہ پوری نماز پڑھے گا) کیونکہ اب یہ بستی شہر کے حکم میں ہے ۔   (النهر الفائق، جلد1، صفحہ 346، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک شہر جب دوسرے کے تابع نہیں ، مستقل شہر ہے، تو ایک کے رہائشی کے لیےاپنے شہر کی حدود سے تجاوز کرتے ہی قصر کرنا واجب ہوگا ،اگر چہ وہ دوسرے متصل شہرکی آبادی میں ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم