Doran e Namaz Machar Kate To Kya ise Maar Sakte Hain ?

دوران ِنماز  مچھر کاٹے تو، کیا اسے مار سکتے ہیں؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: 12354- Nor

تاریخ اجراء:       19 محرم الحرام 1444 ھ/18 اگست 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حالتِ نماز میں مچھر کاٹ رہا تھا،ایک ہاتھ کااستعمال کر تے ہوئے عمل قلیل کے ساتھ مچھر کوماردیا، کیا اس صورت میں نماز ہوگئی یا پھر سے ادا کرنا ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جبکہ مچھر کے کاٹنے پرایک ہاتھ کا استعمال کرتے ہوئے مچھر کو ماردیا، تو اس صورت میں نماز بلاکراہت درست ہوگئی اور اس نماز کودُہرانے کی بھی حاجت نہیں ۔فقہاء نے صراحت فرمائی ہےکہ اگر جوں، چیونٹی اور مچھر وغیرہ دورانِ نماز اذیت پہنچائیں ، تو عملِ قلیل کے ساتھ ان کو مارڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔

   بلا ضرورت عملِ قلیل  کے ساتھ نماز میں جوں یا مچھر مارنا، مکروہ ہے، لیکن اگر مچھر وغیرہ کاٹتے ہوں، تو عملِ قلیل کے ساتھ ان کو مارنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ مکروہاتِ نماز بیان کرتے ہوئےعلامہ شیخ حسن بن عمار شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ومنہ اخذ قملۃ وقتلھا من غیر عذرفان تشغلہ بالعض کنملۃ وبرغوث لایکرہ الاخذ“یعنی مکروہات نماز میں سے یہ بھی ہے کہ جوں کو پکڑنا یا مارنا جب کہ بغیر عذر کے ہو،لیکن اگرکوئی چیزمثلاً: چیونٹی ،مچھر  کاٹ کر  توجہ بٹا رہے ہیں،تو پکڑنے میں کوئی حرج نہیں۔

   مصنف کے قول”لایکرہ الاخذ“کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:”اذا اخذھا بعدالتعرض بالایذاء فاما ان یقتلھا او یدفنھا  وھذا فی غیر المسجد اما فیہ فلا باس بالقتل بعمل قلیل“یعنی تعرض بالایذا کے بعد جب ان کو پکڑ لیا، تو اب ان کو مار دے یا دفن کردے ۔ یہ  حکم مسجد کے علاوہ میں ہے ، اگر مسجد میں ہو، تو عملِ قلیل کے ساتھ اس کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ،صفحہ 355،مطبوعہ کراچی)

   طحطاوی علی الدر پھرردالمحتار میں مکروہاتِ صلاۃ کا بیان کرتے ہوئے نہر سے منقول ہے:”اما فیہ فلا باس بالقتل بشرط تعرض لہ بالاذی ولایطرحھا فی المسجد بطریق الدفن او غیرہ الا اذا غلب علی ظنہ انہ یظفر بھا بعدالفراغ من الصلاۃ“یعنی مسجد میں (مچھر ،جوں)کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ نمازپڑھنے والے کو اذیت دیتے ہوں اور دفن وغیرہ کے طریقہ پر اس کو مسجد میں نہ ڈالے ،مگر یہ کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کو ڈھونڈ لینے کا غالب گمان ہو۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد2،صفحہ 511،مطبوعہ کوئٹہ)

   نماز کے مکروہات بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جوں یا مچھر جب ایذا پہنچاتے ہوں، تو پکڑ کر مار ڈالنے میں حرج نہیں ، یعنی جبکہ عملِ کثیر کی حاجت نہ ہو۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ 3،صفحہ635،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   عملِ کثیر و قلیل کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عملِ کثیر کہ نہ اعمالِ نماز سے ہو، نہ نماز کی اصلاح کے لئے کیا گیا ہو ، نماز فاسد کردیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں ۔جس کام کے کرنے والےکو دور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے ،بلکہ غالب گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ،تو وہ عملِ کثیر ہےاور اگر دور سے دیکھنے والے کو شبہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں ،تو عملِ قلیل ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد1،حصہ 3،صفحہ609،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم