Ek Masjid Mein Aik Se Zaid Jamat Karwana Kaisa ?

ایک مسجدمیں ایک سےزیادہ جماعتیں کروانا

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1604

تاریخ اجراء: 12شوال المکرم1444 ھ/03مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میراسوال یہ تھاکہ ایک مسجدمیں ایک سےزیادہ جماعتیں کروائی جاسکتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      مسجدمحلہ جس کےلیےامام اورجماعت مقررہو،جب  اس کے اہل محلہ ا س میں اذان اوراقامت کے ساتھ مسنون طریقہ سےجماعت کےساتھ نمازپڑھ لیں،تواب دوبارہ اسی کیفیت پر دوسری جماعت قائم کرنامکروہ ہے،البتہ محراب سےہٹ کر اذان کااعادہ کیےبغیردوسری جماعت کرسکتےہیں،اقامت کہنےمیں حرج نہیں۔

   نوٹ: یہ یادرہے کہ مخصوص شرائط کےساتھ مرد پرمسجدمیں جماعت اولی کےساتھ نمازپڑھناواجب ہےاورشرعی رخصت کےعلاوہ، محض سستی کی بناپرمسجدکی جماعت اولی چھوڑناجائزنہیں۔لہذاجماعت ثانی کی امیدپرجماعت اولی کوبلاوجہ شرعی چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔

   اورشارع عام  کی مساجدجن کے نمازی مقررنہیں ہوتے،اسی طرح بازاروں اوراسٹیشن وغیرہ کی مساجد،جہاں لوگ  آتے رہتے ہیں ، اورنمازپڑھ کرچلےجاتے،ہیں،ان  کاحکم یہ ہےکہ وہاں اذان و اقامت کےساتھ بھی دوسری جماعت قائم کرنےمیں حرج نہیں ، بلکہ یہی افضل ہےکہ جوگروہ آئےوہ نئی اذان واقامت کےساتھ جماعت کرے۔

   بہارشریعت میں ہے:" مسجدِ محلہ میں جس کے ليے امام مقرر ہو، امام محلہ نے اذان و اقامت کے ساتھ بطریق مسنون جماعت پڑھ لی ہو تو اذان و اقامت کے ساتھ ہيات اُولی پر دوبارہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے اور اگر بے اذان جماعتِ ثانیہ ہوئی، تو حرج نہیں جب کہ محراب سے ہٹ کر ہو۔ہياءت بدلنے کے ليے امام کا محراب سے دہنے یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہونا کافی ہے، شارع عام کی مسجد جس میں لوگ جوق جوق آتے اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں یعنی اس کے نمازی مقرر نہ ہوں، اس میں اگرچہ اذان و اقامت کے ساتھ جماعتِ ثانیہ قائم کی جائے کوئی حرج نہیں، بلکہ یہی افضل ہے کہ جو گروہ آئے نئی اذان و اقامت سے جماعت کرے، یوہیں اسٹیشن و سرائے کی مسجدیں۔ "ملخصاً(بہارشریعت ،ج01، ص583،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ)

   امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ۔ ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے ۔“(فتاویٰ رضویہ،ج7، ص194، رضا فاؤنڈیشن، لاهور )

   اسی فتاوی رضویہ میں فرمایا:’’اقول لسنانبیح تعمد ترک الجماعۃ الأولی اتکالا علی الاخری فمن سمع منادی ﷲ ینادی ولم یجب بلاعذر اثم وعزر“یعنی میں کہتاہوں : ہم جماعت اولیٰ کے عمداً ترک کو دوسری جماعت پربھروسا کی بناء پر مباح قرار نہیں دیتے اور جس شخص نے بھی اﷲتعالیٰ کی طرف سے بلاواسُنااور اس نے اسے قبول نہ کیا وہ گنہگار ہوگا اور وہ قابل تعزیر ہے۔(فتاوی رضویہ،ج7،ص162،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:"مسجدِ محلّہ میں جماعت ثانیہ کے لئے اعادہ اذان منع ہے تکبیر میں حرج نہیں۔"(فتاوی رضویہ،ج05،ص156،مطبوعہ:رضافاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم