Ek Waqt Mein 2 Ya Is Se Zaid Namazein Jama Karna

ایک وقت میں دو یا اس سے زائد نمازیں جمع کرنا

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی  نمبر: WAT-1436

تاریخ  اجراء:07شعبان المعظم1444 ھ/28فروری2023ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   ایک ویڈیو ہے جس میں دو  یا اس زائد نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے  کو جائز بتا یا ہے  اور بطور دلیل مسلم شریف کی حدیث  بیان کی ہے ۔لہذا میرا سوال یہ ہے کہ کیا  دو یا اس سے زائد نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز ہے ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   سفروحضر میں کسی بھی عذرکی وجہ سے ایک وقت میں دونمازیں جمع کرناجائزنہیں ہے سوائے مزدلفہ میں مغرب وعشاکے اورمیدان عرفات میں ظہروعصرکے(اس کی شرائط کے ساتھ )۔

   فتا وی ہندیہ میں ہے’’ولا یجمع بین الصلاتین  فی وقت واحد  لا فی السفر ولا فی الحضر  بعذر ما عدا عرفۃ  ولمزدلفۃ کذا فی المحیط‘‘ترجمہ:ایک وقت میں دونمازوں کوجمع نہیں کرسکتانہ سفرمیں اورنہ حضرمیں کسی بھی عذرکی وجہ سے ،سوائے عرفہ اورمزدلفہ کے ،اسی طرح محیط میں ہے ۔(کتاب الصلاۃ،باب فی مواقیت الصلاۃ،ج 1،ص 52،دار الفکر،بیروت)  

اس کی تفصیل یہ ہے کہ :

   قرآن پاک کی نص قطعی سے  ثابت ہے کہ ہرنمازکاایک مقررہ وقت ہےاوروقت مقررہونے کامطلب ہی یہ ہوتاہے کہ اسے اسی وقت میں پڑھناضروری ہے  ۔

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ترجمہ کنز الایمان: بے شک نماز  مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ (پارہ 5،سورہ نساء،آیت 103)

   مذکورہ آیت کے تحت تفسیرِ خازن میں ہے” والكتاب هنا بمعنى المكتوب يعني مكتوبة موقتة في أوقات محدودة فلا يجوز إخراجها عن أوقاتها على أي حال كان من خوف أو أمن“ترجمہ:یہاں کتاب بمعنی مکتوب ہے یعنی مقررہ اوقات میں فرض ہیں لہذاان کوان کے وقت کے علاوہ کسی اوروقت میں اداکرناکسی حالت میں بھی جائزنہیں نہ حالت خوف میں اورنہ حالت امن میں ۔(تفسیرِ خازن(لباب التأويل في معاني التنزيل)،ج 1،ص 423،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   اوراحادیث طیبہ میں وقت گزارکرنمازپڑھنے کوناجائزوگناہ فرمایاگیاہے ،جس سے واضح ہے کہ ہرنمازکواس کے اسی وقت میں پڑھناضروری ہے ،کسی نمازکودوسری نمازکے ساتھ جمع کرناجائزنہیں ہے ۔

   مؤطا امام مالک بروایۃ محمد بن حسن شیبانی میں ہے” قال محمد: بلغنا , عن عمر بن الخطاب , أنه «كتب في الآفاق، ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين، ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر» , أخبرنا بذلك الثقات، عن العلاء بن الحارث، عن مكحول“ترجمہ:امام محمد نے فرمایا:ہمیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے خبر پہنچی کہ آپ نے مختلف علاقوں میں خط بھیجا ،جس میں آپ نے انہیں جمع بین الصلاتین سے منع کیا اور انہیں خبر دی کہ ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے،ہمیں اس بات کی ثقہ لوگوں نے بروایت علاء بن حارث عن مکحول خبر دی۔(مؤطا امام مالک بروایۃ محمد بن حسن شیبانی،ابواب الصلاۃ،باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر،ص 82، المكتبة العلمية)

سوال میں مذکوراشکال:

   رہی یہ بات کہ  ویڈیو میں جو بیان کیا گیا ہے کہ مسلم شریف وغیرہ  کی بعض روایات میں اس طرح کاذکرہے کہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے امت کوحرج سے بچانے کے لیے نمازوں کوجمع کیا ہے۔

جواب:

   تو ان کا جواب یہ ہے کہ " وہاں جمع سے مرادحقیقۃ جمع کرنا  نہیں یعنی ایک نمازکودوسری نمازکے وقت میں ادا کرنا نہیں ہے بلکہ صورتاجمع کرنامرادہے یعنی پہلی نمازکوموخرکرکے اس کے آخری وقت میں اداکرنااوراگلی نمازکومقدم کرکے اس کے اول وقت میں اداکرنا۔"

   حضرت علامہ ابوالعباس احمد بن عمربن ابراہیم القرطبی علیہ الرحمۃ (متوفی656ھ)"المفہم لمااشکل من  تلخیص کتاب مسلم " میں  سوال میں ذکرکردہ روایت کے تحت فرماتے ہیں :" قد أخذ الناس في تأويل هذا الحديث مآخد، وأولاها: أن هذا الجمع يمكن أن يكون المراد به تأخير الأولى إلى أن يفرغ منها في آخر وقتها، ثم بدأ بالثانية في أول وقتها، وإلى هذا يشير تأويل أبي الشعثاء۔۔۔۔ وقوله: أراد أن لا يُحرِج أمته: ۔۔۔۔ ومعناه: إنما فعل ذلك لئلا يشق عليهم، ويثقل، فقصد إلى التخفيف عنهم مع المحافظة على إيقاع كل صلاة في وقتها على ما تأوّلناه "ترجمہ:اس روایت کی لوگوں نے مختلف تاویلیں کی ہیں ،جن میں سے پہلی یہ ہے کہ ہوسکتاہے کہ اس جمع سے مرادیہ ہوکہ پہلی کواتناموخرفرمایاکہ اس سے اس کے آخری وقت میں فراغت ہوئی پھردوسری کواس کے اول وقت میں شروع فرمایا۔اوراسی کی طرف حضرت ابوشعثاء کی تاویل  اشارہ کرتی ہے ۔اوریہ جوفرمایاکہ یہ اس لیے کیاتاکہ امت  مشقت میں نہ پڑے تواس کامطلب یہ ہے کہ ایسااس لیے کیاتاکہ امت  پرمشقت  اورگراں نہ ہوپس آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے  امت سےتخفیف کاارادہ فرمایا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہرنمازکواس کے وقت میں اداکرنے کی پابندی کی جائے ،اس کے مطابق جوہم نے تاویل کی ہے ۔( المفہم لمااشکل من  تلخیص کتاب مسلم،باب الجمع بین الصلاتین،ج02،ص347،346،دارابن کثیر،بیروت)

اس توجیہ کی   دلیل:

   سوال میں جوروایت ذکرکی گئی وہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے ہی جومزیدروایات ہیں ،ان میں سے بعض میں خودحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہمانے صراحت فرمائی ہے کہ اس جمع سے مرادیہ ہے کہ پہلی کوموخرفرمایااوردوسری کوجلدی ادافرمایایعنی جمع صوری والی صورت تھی۔

    اوربعض میں، جنہوں نے حضرت عبداللہ  بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ روایت سنی، انہوں نے یہ  وضاحت فرمائی کہ ہماراگمان ہے کہ اس سے یہی صورت مرادہے کہ پہلی کوموخرفرمایااوردوسری کوجلدی ادافرمایایعنی جمع صوری والی صورت۔

   سنن نسائی میں ہے عن ابن عباس قال: «صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا وسبعا جميعا، أخر الظهر وعجل العصر، وأخر المغرب وعجل العشاءترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ فرمایا:میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں آٹھ پوری اورسات پوری رکعات اداکیں ۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ظہر کو موخر فرمایا اور عصرکوجلدی ادافرمایااورمغرب کوموخرفرمایااورعشاکوجلدی ادافرمایا۔(سنن نسائی،ج 1،ص 286،مكتب المطبوعات الإسلامية ، حلب)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم