Fajr Aur Asr Ki Namaz Ke Baad Wajib ul Iada Namaz Parhna

فجر اور عصر کی نماز کے بعد واجب الاعادہ نماز پڑھنا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0175

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر1445ھ/29 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ فجر اور عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا منع ہے ،لیکن ان دونوں نمازوں کے بعد واجب الاعادہ نمازیں پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فجر اور عصر کے بعد  واجب الاعادہ نمار پڑھ سکتے ہیں،جبکہ یقین یا   ظن غالب ہو کہ نماز کا کوئی  واجب  چھوٹ گیا تھایا نماز مکروہ تحریمی ہوگئی تھی اور اگر واجب کے چھوٹنے یا نماز کی کراہت تحریمی  کا یقین یا ظن غالب نہیں،محض وسوسہ و اندیشہ ہے کہ ہو سکتا ہے کوئی  واجب چھوٹ گیا   ہویا نماز مکروہ  تحریمی ہوگئی ہواورا س وجہ سے احتیاطاً نمازوں کا اعادہ کرتا ہے ،تواب  فجر اور عصر کے بعد ان نمازوں کا پڑھنا جائز نہیں۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ فجر اورعصر کے بعد فرض کی قضا پڑھ سکتے ہیں،نفل نماز پڑھنا جائز نہیں،رہا واجب توا س کی دو قسمیں ہیں:(۱)واجب لعینہ،(۲)واجب لغیرہ ،ان میں سے واجب لغیرہ نماز نفل کے حکم میں ہوتی ہے،جیسے وہ نفل نماز جسے شروع کرکے توڑدیا ہواور اسے فجر و عصر کے بعد پڑھنا جائز نہیں ،جبکہ واجب لعینہ نماز مثلاً وتر ، فرض کے حکم میں ہوتی ہے،اور اسے فجر اور عصر   کے بعد پڑھنا جائز ہے۔

   فجر اور عصر  کے بعد نفل نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق صحيح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،آپ فرماتے ہیں:”سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: لاصلاة بعد الصبح حتى ترتفع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس“میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ طلوع فجر کےبعد کوئی (نفل)نماز نہیں حتی کہ  سورج  بلند یعنی طلوع ہوجائےاور  عصر کے بعد  کوئی (نفل) نماز نہیں حتی کہ سورج غروب ہوجائے۔(صحیح البخاری ،ج01،ص121،رقم586،دار طوق النجاۃ)

   درمختار میں ہے: (وکرہ نفل) قصداً (وکل ما کان واجباً لغیرہ کمنذور ورکعتی طواف والذی شرع فیہ ثم افسد  بعد صلاۃ فجر وعصر، لا) یکرہ (قضاء فائتۃ و) لو وتراً او (سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ، وکذا) الحکم من کراھۃ نفل و واجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ (بعد طلوع فجر سوی سنتہ)‘‘  بعد فجر و عصر قصداً نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، یونہی ہر وہ نماز جو واجب لغیرہ ہو،جیسے منت، طواف کی دو رکعات اور ایسی نفل نماز جسے شروع کر کے فاسد کر دیا ہو، البتہ  طلوعِ فجر کے بعد سنت فجر، یونہی فوت شدہ نمازوں کی قضا مکروہ نہیں، اگرچہ وتر ہو یا سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ، کراہت کا یہ حکم نوافل اور واجب لغیرہ میں ہے، نہ کہ فرض اور واجب لعینہ میں۔(الدرالمختار  مع رد المحتار ملتقطاً ، ج 2، ص 44، 45،دار عالم الکتب)

   حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’ويكره التنفل بعد طلوع الفجراي قصدا، ومثل النافلة في هذا الحكم الواجب لغيره كالمنذور وركعتي الطواف وقضاء نفل افسده، اما الواجب لعينه فلا كراهة فيه ‘‘طلوعِ فجر کے بعد قصداً نوافل شروع کرنا ،مکروہ ہے اور اس حکم میں واجب لغیرہ  بھی نفل کی مثل ہے، جیسے منت، طواف کی دو رکعات اور نفل کی قضا، جسے فاسد کر دیا تھا، بہرحال واجب لعینہ ہو، اس کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 188، مطبوعہ بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:”كل ما كان واجبا لغيره  كالمنذور وركعتي الطواف         والذي شرع فيه، ثم أفسده ملحق بالنفل حتى لا يصليها في هذين الوقتين “ہر واجب لغیرہ جیسے منت مانی ہوئی نماز، طواف کی دو رکعات، وہ نفل نماز جسے شروع کرکے فاسد کردیا ہو، یہ سب نفل سے ملحق ہیں،حتی کہ اسےان دو اوقات (بعد طلوعِ فجر و نمازِ عصر) نہیں پڑھے گا۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ،  ج 01، ص 87، مطبوعہ قاھرہ)

   اور ترک واجب یا کراہت تحریمی کی وجہ سے اعادہ کی جانے والی نماز واجب لعینہ ہے، جبھی فقہائے کرام نے فجر اور عصر کے بعد ان کو ادا کرنے کی اجازت دی ، ہاں اگر ترک واجب یا نماز کی کراہت تحریمی کا یقین یا ظن غالب نہ ہو، محض وسوسہ و اندیشہ  کی وجہ سے احتیاطاً نمازوں کا اعادہ کر رہا ہو،  تو اب یہ نمازیں  نفل ہوں گی اور نفل نماز  کا فجر اور عصر کے بعد ادا کرنا ،جائز نہیں۔

   چنانچہ بحر الرائق اور پھر وہاں سے شامی  میں ہے:”فإن كان في وقت يكره التنفل بعد الفرض فمكروه كما بعد الصبح والعصر وإلا فإن كان لخلل في المؤدى فإن كان ذلك الخلل محققا إما بترك واجب أو بارتكاب مكروه فغير مكروه بل واجب وصرح به في الذخيرة وقال إنه لا يتناوله النهي وإن كان ذلك الخلل غير محقق بل نشأ عن وسوسة فهو مكروه “ ترجمہ:اگر ایسے وقت میں ہے جس میں فرض کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے،تو اب  جماعت کی نماز کو دوبارہ پڑھنا بھی مکروہ ہے،جیسا کہ صبح اور عصر کی نماز کے بعد، اگر ادا کردہ نماز میں خلل کی وجہ سے اعادہ کرے،تو اگر یہ خلل یقینی ہے کہ ترک واجب یا مکروہ تحریمی کے ارتکاب کی وجہ سے ہو،تو اب مکروہ  نہیں،ذخیرہ میں اس کی صراحت کی اور فرمایا  کہ نہی اسے شامل نہیں اور اگر یہ خلل یقینی نہیں،بلکہ محض وسوسہ کی وجہ سے ہو تو مکروہ ہے۔(البحر الرائق ،ج02،ص67،دار الکتاب الاسلامی)

   فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:” کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ افیونی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ،اور اگر اس نماز کے پھیرنے کاحکم ہو، تو فقط ظہر وعشاء کی پھیری جائے یافجر وعصرومغرب کی بھی ،اور افیون کھانی کیسی ہے؟ افیونی فاسق مستحق عذاب ہے یا نہیں؟‘‘

   اس کے جواب  میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے فرمایا: ”اور اگر ہوش میں ہو جب بھی اس کے پیچھے نماز ممنوع ہے:” لان الصلٰوۃ خلف الفاسق تکرہ کراھۃ تحریم کما حققہ فی الغنیۃ وغیرھا کیونکہ فاسق کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ اس مسئلہ کی تحقیق غنیہ وغیرہ میں کی ہے۔(ت)اگر پڑھ لی ہو، تو نما ز پھیرنی ضروری ہے ،اگرچہ فجرخواہ عصر خواہ مغرب کا وقت ہو”فان کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ تحریم تعاد وجوباکما فی الدر وغیرہ بل وکذا علی قول من قال بالتنزیہ فان الاعادۃ اکمال لاتنفل کما لایخفی وﷲ سبحٰنہ، وتعالٰی اعلم “ کہ ہر وہ نماز جو کراہت ِتحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہواس کا اعادہ واجب ہوتا ہے ،جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے، بلکہ اس کے قول پر بھی یہی حکم ہے، جو اسے مکرہ تنزیہی قرار دیتا ہے، کیونکہ اعادہ ا کمال ہے، زائداور بے فائدہ نہیں ،جیسا کہ واضح ہے۔ واﷲ سبحانہ و تعالٰی اعلم (ت)۔“(فتاوی رضویہ ،ج06،ص463، 464،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   احتیاطاً اعادہ کی جانے والی نماز  نفل ہونے  کے متعلق منیۃ المصلی ، فتاوی ہندیہ  اور حاشیۃ شلبی میں ہے،واللفظ للاول:”ومن اراد ان یقضی صلوات کلھا صلاھا ان کان لاجل نقصان دخلھا او کراھۃ فحسن والا فقیل لا یکرہ لانہ اخد بالاحتیاط الا بعدالفجر و العصر لانہ نفل ظاھرا وھو مکروہ بعدھما“جو اپنی تمام نمازوں کی قضا کرنا  چاہے،جو کہ وہ پڑھ چکا ہو،تو اگر یہ نماز میں کسی کمی کے آجانے یا کراہت کی وجہ سے ہو تو بہت اچھا ہے،ورنہ  ایک قول کے مطابق مکروہ نہیں کہ وہ احتیاط پر عمل کررہا ہے، اِلَّا یہ کہ فجر اور عصر کےبعد نہ پڑھے کہ یہ بظاہر نفل ہیں اور ان دونوں کے بعد نفل مکروہ ہے۔(غنیۃ المتملی ،ص535،مطبوعہ کوئٹہ) (الفتاوی الھندیہ ، ج01، ص124 ،دار الفکر)(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق ،ج01، ص188،مطبوعہ قاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم