Ghalat Luqma Dene Wale Ki Namaz Ka Hukum ?

غلط لقمہ دینے والے کی نماز کا حکم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13305

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک 1445 ھ/18 مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چار رکعت والی نماز میں امام چوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہونے لگا ،تو ایک مقتدی نے یہ سمجھ کر کہ امام پانچویں کے لیے کھڑا ہو رہا ہے لقمہ دے دیا ،لیکن امام نے نہیں لیا ،کیا لقمہ دینے والے کی نماز ٹوٹ گئی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس مقتدی نےغلط لقمہ دیا اس کی نماز فاسد ہوگئی البتہ چونکہ امام نے لقمہ نہیں لیا،اس لئے امام اور باقی مقتدیوں کی نماز درست ہوگئی۔ لقمہ دینے والے مقتدی کی نماز  فاسد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لقمہ دینا ایک اعتبار سے کلام میں داخل ہے،البتہ بوقتِ ضرورت یا جہاں خاص نص وارد ہے ، وہاں ہمارے ائمہ نے استحساناً اس کے جواز کا حکم دیا ۔  مذکورہ صورت میں  جس مقتدی نے لقمہ دیا ،اس کا لقمہ دینا بے ضرورت بلکہ غلط واقع ہوا، لہٰذا یہ کلام  قرار پائے گا اور لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”تفسد صلاتہ بالفتح مرۃ ولا یشترط فیہ التکرار وھو الاصح ھکذا فی فتاوی قاضیخان“یعنی ایک مرتبہ (غلط)لقمہ دینے سے نماز فاسد ہوجائے گی ،  اس میں تکرار شرط نہیں اور یہی زیادہ صحیح ہے، ایسا ہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔(فتاوی عالمگیری،جلد 1،صفحہ 99، مطبوعہ:کوئٹہ)

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قدنص فی الفتح فی نفس مسئلۃ الفتح ان التکرار لم یشترط فی الجامع ای ان الجامع الصغیر لم یشترط للافساد تکرار الفتح بل حکم بہ مطلقا قال وھوالصحیح وکذا صححہ فی الخانیۃ وقد علم ھذا من مذھب الامام فانہ اذا جعل کلاما فقلیلہ و کثیرہ سواء فاعرف وتثبت ۔(فتح القدیر میں خاص  مسئلۂ لقمہ میں تصریح ہے کہ جامع میں تکرار کوشرط نہیں کیا یعنی جامع صغیرنے نمازفاسد ہونے کے لئے تکرارِلقمہ کو شرط قرارنہیں دیا،بلکہ مطلقاً حکم جاری کیااور کہایہی صحیح ہے، اسی طرح اسے خانیہ نے بھی صحیح قراردیا اور مذہبِ امام کے حوالے سے یہ معلوم ہے کہ جب انہوں نے اسے کلام قراردیا ہے، تو اب کلام کے قلیل اور کثیر کاایک ہی حکم ہوگا، اسے اچھی طرح جان لو اور ثابت قدم رہو ۔)“(فتاوی رضویہ، جلد7،صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”ظاہر ہے کہ جب امام کو قعدۂ اولیٰ میں دیر ہوئی اور مقتدی نے اس گمان سے کہ یہ قعدۂ اخیرہ سمجھا ہے ،تنبیہ کی تو دو حال سے خالی نہیں یا تو واقع میں اس کا گمان غلط ہوگا یعنی امام قعدۂ اولیٰ ہی سمجھا ہے اوردیر اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے اس بار التحیات زیادہ ترتیل سے ادا کی، جب تو ظاہر ہے کہ مقتدی کا بتانا نہ صرف بے ضرورت بلکہ محض غلط واقع ہوا ، تو یقیناً کلام ٹھہرا اور مفسدِ نماز ہوا “(فتاوی رضویہ، جلد7،صفحہ 264، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:”ایک شخص تراویح پڑھا رہا تھا ، وہ دو رکعت پر تشہد میں بیٹھا ، پچھلی صفوں میں سے نمازیوں نے لقمہ دیا ، ان کے گمان میں ایک رکعت ہوئی تھی ، امام نے لقمہ نہیں لیا بلکہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرا اور دو رکعت  مکمل کر لیں ، جن دو شخصوں نے لقمہ دیا تھا ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟“

   اس کا جواب دیتے ہوئے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”نماز ایسی عبادت ہے کہ حالتِ نماز میں کسی کو سکھانا یا کسی سے سیکھنا دونوں ناجائز ہیں یعنی کسی کو لقمہ دینا یا کسی سے لقمہ لینا ، مگر ضرورتاً اصلاحِ نماز کے قصد سے جائز رکھا گیا ہے اور قاعدہ یہی ہے کہ ضرورتاً جائز ہے اور بغیر ضرورت اگر لقمہ دیا جائے گا تو لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔۔۔۔۔لہٰذا اس اصول پرجب امام دو رکعت پر صحیح بیٹھا تھا ، تو لقمہ دینے والوں نے بلا ضرورت لقمہ دیا ،لہٰذا ان کی نماز فاسد ہوگئی“(وقار الفتاوی ،جلد2، صفحہ 235-236،بزمِ وقار الدین ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم