Hafiz Imam Ka Din Ke Nawafil Mein Buland Awaaz Se Quran Sunana

حافظ صاحب کا دن کے نوافل میں بلند آواز سے قرآن سنانا

مجیب: محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم  عطاری

فتوی نمبر: pin-7419

تاریخ اجراء: 29شعبان المعظم1445ھ11مارچ2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ کیا تراویح میں قرآن  سنانے  اور سننے والے حافظ صاحبان اس طرح کر سکتے ہیں کہ جتنی منزل رات کو پڑھنی ہو،وہ دن میں  نوافل کی صورت میں ایک دوسرے کو سنا لیں،مثلاً:ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی اور ان میں  امام بلند آواز سے قراءت کرے، جو غلطی ہو،مقتدی بتاتا جائے،یونہی دوسرا بھی کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ دن کے نوافل میں امام و منفرد(تنہا نماز ادا کرنے والا)دونوں پر سِر(آہستہ پڑھنا) واجب ہے اور ان میں جَہر(بلند آواز سے پڑھنا)ناجائز اور گناہ ہے اور رات کے نوافل میں منفرد کو اختیار ہے،چاہے سِر کرے یا جہر اور امام پر جہر واجب ہے۔دن سے مراد طلوعِ صبحِ صادق سےلے کر غروبِ آفتاب تک اور رات سے مراد غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ صبحِ صادق تک کا وقت ہے۔

   اس  تفصیل سے سوال کا جواب بھی واضح ہو گیا اور وہ یہ کہ حُفاظ کا مذکورہ طریقہ کار کے مطابق دن میں منزل سنانا،جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں دن کے نوافل میں جہر کرنا پایا جائے گا،جو ناجائز اور گناہ ہے،البتہ رات کے نوافل میں یوں منزل سنانا ، جائز ہے،کہ ان میں ویسے ہی امام پر جہر واجب ہے۔

   دن کی نمازوں میں قراءت کے حوالہ سے حضرتِ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’صلاۃ النھار عجماء‘‘ترجمہ:دن کی نماز میں قراءت آہستہ  ہے۔(مصنف عبد الرزاق،ج2،ص493،مطبوعہ المجلس العلمی،ھند)

   اسی بارے میں البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’ان المتنفل بالنهار يجب عليه الاخفاء مطلقا والمتنفل بالليل مخير بين الجهر والاخفاء ان كان منفردا،اما ان كان اماما فالجهر واجب‘‘ترجمہ: دن میں  نفل ادا کرنے والے پر مطلقاً آہستہ پڑھنا واجب ہےاور رات میں ادا کرنے والے کو آہستہ اور بلند پڑھنے میں اختیار ہے، اگر وہ تنہا پڑھ رہا ہو،بہرحال اگر وہ امام ہو،تو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج1،ص355،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

   نہارِ شرعی کی تعریف کے بارے میں فتاوی شامی میں ہے:’’المراد بالنهار هو النهار الشرعی وهو من اول طلوع الصبح الى غروب الشمس‘‘ترجمہ:دن سے مراد شرعی دن ہے اور وہ طلوعِ صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہوتا ہے۔ (فتاوی شامی،ج1،ص371،مطبوعہ دار الفکر)

   اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا:’’ رمضان شریف میں لڑکوں کے پیچھے دن میں دوتین بالغ حافظ وغیرہا نماز کے اندرقرآن مجید سنتے ہیں، یہ امرمشروع ہے یانہیں؟ بظاہر  کتبِ فقہیہ سے مفہو م ہوتاہے کہ نوافلِ روز میں سراً پڑھنا واجب ہے؟‘‘

   تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’یہ امر بالاتفاق نامشروع وممنوع ہے،مذہبِ صحیح پر تواس لیےکہ وہ جماعت باطل ہے’’لان نفل البالغ مضمون،فلایصح بناء الا قوی علی الاضعف‘‘ ترجمہ: کیونکہ بالغ کے نفل اس کے ذمہ لازم ہوجاتے ہیں، لہٰذا اقوی کی بناء اضعف پرصحیح نہیں۔۔اور مذہبِ ضعیف پر اس لئے کہ دن کے نفل میں اِخفا واجب ہے،حدیث میں ہے:’’صلوۃ النھار عجماء‘‘ترجمہ:دن کی نماز میں قراءت آہستہ ہے۔درمختارمیں ہے :’’یجھر الامام وجوبا فی الفجر واولی العشائین الی قولہ:ویسرّ فی غیرھا کمتنفل بالنھار‘‘ ترجمہ: امام پر فجر اور مغرب و عشاء کی پہلی دورکعتوں میں جہرکرنا واجب ہے (آگے چل کرلکھا)اور ان کے علاوہ میں  سِر واجب ہے،جیسے دن میں کوئی نفل ادا کر رہا ہو۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج7،ص444،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم