Imam Ke Sath Aik Muqtadi Ho, To Naya Aane Wala Shaqsh Jamat Mein Kaise Shamil Ho

امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو ، تو نیا آنے والا شخص جماعت میں کیسے شامل ہو؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7452

تاریخ اجراء:24محرم الحرام1443ھ/02ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ امام اور ایک مقتدی جماعت قائم کر چکے تھے، مزیدایک نمازی آیا، تو اب کیا امام آگے بڑھ کر ایک صف کا فاصلہ قائم کرے گا یا جوایک مقتدی پہلے سے کھڑا تھا، وہ ایک صف پیچھے آئے گا اور یہ دونوں پیچھے صف بنائیں گے، کیا صورت اختیار کی جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امام اور ایک مقتدی  جماعت قائم کر چکے تھے، اب مزید ایک مقتدی آیا،تو افضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے آجائے اور اگر مقتدی  مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے نہ آئے، تو امام کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن اگر امام اور مقتدی میں سے  کوئی بھی آگے پیچھے نہیں ہوا، تو آنےوالے کو چاہیے کہ مقتدی  کو پیچھے آنے یا  امام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کر دے، مگر جب یہ نیا مقتدی اشارہ کرے، تو  اُن دونوں میں سے جسے اشارہ کیا گیا ہو،وہ چند لمحات کے وقفے سے حرکت کرے، تاکہ یہ محسوس ہو کہ گویا یہ شریعت کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حرکت کر رہا ہے، مقتدی کے حکم کی وجہ سے نہیں کر رہا اور حرکت کرنے والے کے دل میں  بھی شریعت کی اتباع کی نیت ہو،  مقتدی کے اشارے کی تعمیل کی نیت نہ ہو، کہ اشارے کی تعمیل کی نیت کرنے سے  اُس کی نماز فاسِد ہو جائے گی۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’إذا اقتدى بإمام فجاء آخر يتقدم الإمام موضع سجوده كذا في مختارات النوازل وفي القهستاني عن الجلابي أن المقتدي يتأخر عن اليمين إلى خلف إذا جاء آخر وفي الفتح: ولو اقتدى واحد بآخر فجاء ثالث يجذب المقتدي بعد التكبير ولو جذبه قبل التكبير لا يضره، وقيل يتقدم الإمام اهـ ومقتضاه أن الثالث يقتدي متأخرا ومقتضى القول بتقدم الإمام أنه يقوم بجنب المقتدي الأول. والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته۔‘‘ترجمہ:جب ایک شخص امام کی اقتدا کرے، پھر ایک اور نمازی آ جائے ،تو امام آگے اپنے سجدے کی جگہ کی طرف بڑھ جائے، جیسا کہ مختارات النوازل میں ہے۔ قہستانی  میں جلابی سے یہ ہے کہ جب نیا مقتدی آئے ،تو مقتدی امام کی دائیں جانب سے ہٹ کر پیچھے آ جائے۔ فتح القدیر میں ہے کہ اگر ایک شخص نے اقتدا کی ہو اور پھر تیسرا شخص(دوسرا مقتدی) آ جائے تو وہ پہلے مقتدی کو تکبیرِ تحریمہ باندھ لینے کے بعد پیچھے کھینچ لے اور اگرتکبیر سے پہلے کھینچے تو اِس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام آگے بڑھ جائے۔(فتح القدیر کی عبارت مکمل ہوئی)  اُن کی عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ تیسرا  شخص پچھلی صف میں اقتدا کرے اور ”امام کے آگے بڑھنے“والے قول کا مطلب یہ ہے کہ تیسرا شخص اُس مقتدی کے پہلو میں ہی کھڑا ہو جائے۔جو رائے زیادہ ظاہر  ہے وہ یہ ہے کہ  جب دوسرا مقتدی آئے تو پہلے مقتدی کو چاہیے کہ وہ پیچھے آ جائے، اگر وہ پیچھے آ جاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ نیا آنے والا اُسے پیچھے کھینچ لے، بشرطیکہ اُس پہلے مقتدی کی نماز ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد2،باب الامامۃ،  صفحہ371، مطبوعہ   کوئٹہ)

   امامِ اہلسنّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو اور دوسرا آئے توافضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے ہٹے،ہاں اگرمقتدی مسئلہ نہ جانتاہویاپیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تو ایسی صورت میں امام کوبڑھنا چاہئے کہ ایک کابڑھنادوکے ہٹنے سے آسان ہے، پھر اگر(مقتدی) مسئلہ جانتاہو، توجب کوئی دوسرا ملاچاہتاہے،توخودہی پیچھے ہٹنا چاہئے، خواہ امام خود ہی آگے بڑھ جائے، ورنہ اس آنے والے شخص کو چاہئے کہ مقتدی کو اور وہ مسئلہ نہ جانتاہو تو امام کواشارہ کرے،انہیں مناسب ہے کہ معاً اشارہ کے ساتھ ہی حرکت نہ کریں کہ امتثال ِامرِغیر کا شبہہ نہ ہو، بلکہ ایک تامل ِخفیف کے بعد اپنی رائے سے اتباعِ حکم شرع وادائے سنت کے لئے،نہ اس کااشارہ ماننے کی نیت سے حرکت کریں، اس صورت میں برابر ہے کہ یہ آنے والا مقتدی نیت باندھ کر اشارہ کرے خواہ بلانیت کے، بہرحال وہ اطاعتِ حکمِ شرع کریں گے،نہ اس کے حکم کی اطاعت اور جو جاہل اس کا حکم ماننے کی نیت کرے گا، تو اس کاتکبیر تحریمہ کے بعداشارہ کرنا کیا نفع دے گا، کہ امام یامقتدی کودوسرے مقتدی کاحکم ماننا کب جائز ہے، لقمہ قراءت میں یا افعال میں لینا کہ امام کو جائز ہے وہ بھی بحکم شرع ہے، نہ کہ اطاعتِ حکم مقتدی،جو اس کی نیت کرے گا، اس کی نماز خود ہی فاسد ہوجائے گی اور جب وہ امام ہے، تواس کے ساتھ سب کی جائے گی۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ138،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ ایک شخص امام کے برابر کھڑا تھا ،پھر ایک اور آیا ،تو امام آگے بڑھ جائے اور وہ آنے والا اس مقتدی کےبرابر کھڑا ہو جائے یا وہ مقتدی پیچھے ہٹ آئے خود یا آنے والے نے اس کو کھینچا، خواہ تکبیر کے بعد یا پہلے یہ سب صورتیں جائز ہیں، جو  ہو سکے کرے اور سب ممکن ہيں تو اختیار ہے، مگر مقتدی جبکہ ایک ہو تو اس کا پیچھے ہٹنا افضل ہے اور دو ہوں تو امام کا آگے بڑھنا، اگر مقتدی کے کہنے سے امام آگے بڑھا یا مقتدی پیچھے ہٹا اِس نیت سے کہ یہ کہتا ہے اِس کی مانوں، تو نماز فاسد ہو جائے گی اور حکم شرع بجالانے کے ليے ہو، کچھ حرج نہیں۔(بھارِ شریعت، جلد1، حصہ3 ،  صفحہ585،  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم