Imam Kon Ban Sakta Hai ?

امام کون بن سکتا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12144

تاریخ اجراء: 08 شوال المکرم1443ھ/10مئی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص نماز کے ضروری و بنیادی مسائل بھی نہ جانتا ہو، ایسے شخص کو امام بنانا کیسا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

سائل: محمد نعمان

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     امامت کروانے کا اہل ہر وہ مسلمان مردہے جو عاقل،بالغ،صحیح القراءۃ، مسائلِ نماز و طہارت کا عالم، غیر فاسق، شرعی اعذا ر مثلاً ریح وقطرہ وغیرہ کے امراض سے سلامت ہو۔ لہذا جس کے اندر یہ تمام تر شرائط پائی جائیں وہ ہی بالغ مردوں کی امامت کروا نے کا اہل ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ہرگز امامت کے مصلے پر کھڑا نہ کیا جائے۔

     چنانچہ نورالایضاح میں ہے:”شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار“صحیح مردوں کی امامت کے صحیح ہونے کی چھ شرطیں ہیں :اسلام،بلوغ ،عقل،مرد ہونا،قراءت کا صحیح ہونا اور اعذار سے سلامت ہونا۔(نورالایضاح مع الطحطاوی،ص287،مطبوعہ کراچی)

     سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ امام کی شرائط بیان کرتے ہوئے فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”امام اُسے کیا جائے جو سنّی العقیدہ صحیح الطہارۃ صحیح القرأۃ مسائلِ نماز و طہارت کا عالم غیر فاسق ہو نہ اُس میں کوئی ایسا جسمانی یا روحانی عیب ہو جس سے لوگوں کو تنفر ہو۔ “(فتاوی رضویہ ، ج 10، ص 626، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

     بہار شریعت میں ہے:” مرد غیرمعذور کے امام کے ليے چھ شرطیں ہیں: (۱) اسلام۔  (۲) بلوغ۔ (۳) عاقِل ہونا۔ (۴) مرد ہونا۔ (۵) قراءت۔ (۶) معذور نہ ہونا۔“(بہار شریعت  ، ج01، ص561-560، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     مفتی خلیل خان برکاتی  علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ”امامت ایک منصبِ دینی ہے اور اس کا اہل ہرکس و ناکس نہیں کہ جسے چاہیں امام بنالیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے امام، تمہارے رب اور تمہارے درمیان، سفیر ہیں تو چاہیے کہ تمہارے بہتر امامت کریں اور دوسری بات حدیث شریف کا مضمون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی نماز، بارگاہِ الہی میں قبول ہو، وہ اپنے سے بہتر کو امام بنائے۔ غرض یہ لازم ہے کہ وہ نماز کے فرائض و واجبات، و سنن و مستحبات سے واقف ہو۔ مفسدات و مکروہات نماز پر مطلع ہو۔ ورنہ کسی قول و فعل سے نماز فاسد و ناقص ہوگی اور اسے علم بھی نہ ہوگا۔ خود بھی تارکِ نماز ہوگا دوسروں کی نماز بھی برباد ہوگی۔“ (فتاوٰی خلیلیہ، ج 03، ص 351، ضیاء القرآن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم