Iqamat Ki Niyat Mein 15 Din Ki Tayeen Ki Wajah

اقامت کی نیت میں پندرہ دن کی تعیین کی وجہ

مجیب:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی  نمبر:103

تاریخ  اجراء: 24صفرالمظفر1443ھ/02اکتوبر2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسافر کے مقیم ہونے کے لیے کسی شہر میں پندرہ دن اقامت کی نیت کرنے کا جو مسئلہ ہے،اس میں پندرہ دن کی تعیین کی کیا وجہ ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   اقامت کی کم از کم مدت پندرہ دن ہونے کی تعیین حضرات صحابہ کرام ابن عمر و ابن عباس رضی اللہ عنھما جلیل القدر  ہستیوں سے منقول ہے۔  پھر چونکہ یہ مقدّرات شرعیہ (یعنی وہ چیزیں جن کی ایک خاص تعداد شرع میں متعین ہو ) میں سے ہے ، جس میں محض قیاس کا عمل دخل نہیں ہوتا، اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بغیر دلیل کے ہرگز عمل نہیں کرتے، تو لازمی بات ہے کہ انہوں نے ضرور نبی کریم علیہ السلام سے سنا ہوگا۔ تو ان کی پیروی درحقیقت سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہے،لہٰذا ہم نے حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی وجہ سے جو حکماً مرفوع ہیں، پندرہ دن اقامت کی مدت مقرر کی ۔

   پھر چونکہ اس سلسلہ میں دیگر اقوال بھی موجود ہیں، تو ہم نے حقیقتاً قیاس نہ سہی، لیکن بظاہر صورتِ قیاس سے اسے دیگر منقول اقوال پر ترجیح دی، وہ یوں کہ ہمیں اس کی ایک تائید عورت کے کم از کم پاکی کے ایام یعنی طہر کے حکم سے ملی۔ ان میں علتِ جامع، رخصت کی وجہ سے جو بات ذمے سے ساقط ہوئی ، اسے دوبارہ ثابت کرناہے۔ یعنی جس طرح  حیض کی وجہ سے ساقط نمازوں کو طہر دوبارہ ثابت کر دیتا ہے، یونہی سفر کی وجہ سے  ساقط رکعتوں کو مقیم ہونا پھر سے ذمے پر لازم و ثابت کر دیتا ہے۔ تو طہر کی طرح اقامت کی کم از کم مدت بھی پندرہ دن ہو نی چاہیے۔ یہ چونکہ ایک معقول بات اور ظاہر قیاس ہے، لہٰذا ہم نے حضرت ابن عباس و حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم  سے مروی قول کو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول اقوال پر ترجیح دی ۔

   عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:”عن ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنھم قالا: إذا قدمت بلدۃ وأنت مسافر وفی نفسک أن تقیم خمسۃ عشر یوماً فأکمل الصلاۃ بھا۔۔۔رواہ الطحاوی وروی ابن شیبۃ فی مصنفہ“ترجمہ:حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، دونوں فرماتے ہیں:جب تم کسی شہر میں جاؤ اور مسافر ہو اور تمہارے دل میں یہ ہو کہ پندرہ دن ٹھہرنا ہے ،تو وہا ں مکمل (چار رکعت) نماز پڑھو ۔ ۔ ۔اسے امام طحاوی اور ابن شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا۔( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،جلد7، صفحہ170، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   نورالانوار شرح المنار میں ہے:”قال الکرخی :لا یجب تقلیدہ الا فیما لا یدرک بالقیاس) لانہ حینئذ یتعین جھۃ السماع منہ۔۔۔(وقد اتفق عمل اصحابنا بالتقلید فیما لا یعقل  بالقیاس) یعنی: اباحنیفۃ وصاحبیہ رحمھم اللہ کلھم متفقون بتقلید الصحابی (کما فی اقل الحیض) فان العقل قاصر بدرکہ فعملنا جمیعاً بما قالت عائشۃ رضی اللہ عنھا“ ترجمہ : امام کرخی فرماتے ہیں : صحابی کی تقلید سوائے خلاف قیاس معاملات کے واجب نہیں ۔۔۔ ہمارے اصحاب کے عمل کاخلافِ قیاس معاملات میں صحابہ کی تقلید پر اتفاق ہے،یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اور صاحبین رحمھم اللہ سبھی (خلافِ قیاس معاملہ میں ) صحابی کی تقلید پر متفق ہیں، جیسے حیض کی اقل مدت کی مقدار میں، کیونکہ عقل اس مقدار کو سمجھنے میں قاصر ہے، تو ہم نےاس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر عمل کیا ۔

   قمر الاقمارمیں”یتعین جھۃ السماع“ کے تحت ہے:”لأن الصحابی رضی اللہ عنہ العادل لا یعمل إلا بدلیل، وإذا انتفی القیاس تعین السماع منہ صلی اللہ علیہ وسلم، فتقلیدہ عن تقلید المسموع“ ترجمہ:کیونکہ صحابی عادل دلیل کے بغیرعمل نہیں کریں گے، اور جب قیاس منتفی ہوگیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سننا متعین ہے، تو ان صحابی کی تقلید دراصل انہوں نے جن سے سنا (یعنی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان کی تقلید ہے۔

   نیز”اقل الحیض“ کے تحت اسی میں ہے:”فإن تقدیرہ لا یعرف بالقیاس“ ترجمہ: کیونکہ اس کی مقدارکی معرفت قیاس سے نہیں ہوسکتی۔(نورا لانوار شرح المنار،جلد2،صفحہ 328۔329،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   توضیح تلویح میں وہ مقامات جہاں قیاس نہیں ہو سکتا،بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” (ولا مدخل للعقل فی درکھا) کالمقدرات مثل أعداد الرکعات وسائر المقادیر الشرعیۃ التی لا مدخل للعقل فی درکھا“ترجمہ:(وہ اشیا ءجنہیں عقل کے ذریعے نہیں جانا جا سکتا) جیسے مقدرات (یعنی وہ چیزیں جن کی ایک خاص تعداد شرع میں متعین ہو ) مثلاً  رکعتوں کی مخصوص تعداد اور دیگر  شرعی مقادیر جنہیں جاننے میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔( توضیح تلویح،جلد2،صفحہ 109، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   ہدایہ میں ایام نحر کے تین دن ہونے کی دلیل دیتے ہوئے یہی فرمایا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور مقادیر میں رائے رہنما ئی نہیں کرتی،صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں:”ولنا ما روی عن عمر و علی وابن عباس رضی اللہ عنھم ، انھم قالوا: أیام النحر ثلاثۃ  أفضلھا أولھا، وقد قالوہ سماعاً، لأن الرأی لا یھتدی إلی المقادیر“ ترجمہ:ہماری دلیل حضرت عمر ،حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :ایام نحر تین ہیں ان میں افضل پہلا دن ہے، اور یقیناً انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر کہا ہے، کیونکہ رائے مقادیر شرعیہ کی رہنمائی نہیں کرتی۔( دایہ مع بنایۃ،جلد 14،صفحہ368۔ 369، مطبوعہ  ملتان)

   اسی طرح اقامت کی مدت کے متعلق ہدایہ میں ہے:”(ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوی الإقامۃ فی بلدۃ أو قریۃ خمسۃ عشر یوماً أو أکثر) لأنہ لا بد من اعتبار مدۃ لأن السفر یجامعہ اللبث فقدرناھا بمدۃ الطھر لأنھما مدتان موجبتان وھو مأثور عن ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنھما والأثر بمثلہ کالخبر۔ ملتقطاً“ ترجمہ:( اور سفر کے حکم میں ہی رہےگا حتی کہ کسی شہر یا بستی میں پندرہ یا اس سے زائد دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے ) کیونکہ کسی مدت کا اعتبار کرنا تو ضروری ہے، اس لیے کہ سفر میں ٹھہرنا بھی ساتھ ساتھ ہوتاہے، تو  ہم نے اسے طہر  کی مدت سےمقرر کیا ،کیونکہ یہ دونوں مدتیں ثابت کرنے والی ہیں، اور یہی ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، اور اس طرح کی اشیا ءمیں اثر خبر کی طرح ہوتا ہے۔

   فتح القدیر میں ”والأثر فی مثلہ کالخبر“کے تحت ہے:”وقد ینافیہ قولہ فقدرناھا بمدۃ الطھر لأنھما مدتان  موجبتان  فھذا قیاس اصلہ مدۃ الطھر، والعلۃ کونھا موجبۃ ما کان ساقطاً وھی ثابتۃ فی مدۃ الإقامۃ وھی الفرع فأعتبرت کمیتھا بھا وھو الحکم، وإصلاحہ بانہ بعد ثبوت التقدیر بالخبر وجدناہ علی وفق صورۃ قیاس ظاھر فرجحنا بہ المروی عن ابن عمر علی المروی عن عثمان“ ترجمہ:اور اس کے منافی ہے صاحب ہدایہ کا یہ قول کہ ہم نے اسے مدت طہر سے مقرر کیا، کیونکہ یہ دونوں موجب ہیں، تو یہ قیاس ہے اور اس کی اصل مدتِ طہر ہے، اور جامع علت، ساقط ہوچکی چیز کو ثابت کرنے والی ہونا ہے، اور یہ مدتِ اقامت میں ثابت ہے جو فرع ہے، تو اقامت کی مدت کو طہر کی مدت  پر قیاس کیا جائے گا اور یہ حکم ہے،اس منافات کی یوں اصلاح ہو سکتی ہے کہ خبر سے  اقامت کی مدت ثابت ہو جانے کے بعد  ہم نے اسے ظاہر قیاس کے موافق پایا، تو اس سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو عثمان رضی اللہ عنہ کے اثر پر ترجیح دی۔( فتح القدیر ،جلد2،صفحہ34،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم