Isha Ka Waqt Baqi Samajhte Hue Fajr Ke Waqt Mein Isha Parhne Ka Hukum

عشا ء کا وقت باقی سمجھتے ہوئےفجر کے وقت میں عشاء پڑھ لی، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-084

تاریخ اجراء: 19 صفر المظفر5144ھ/06 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے فجر کے وقت کو عشاء کا وقت سمجھتے ہوئے ،عشاء کی نماز ادا کر لی، تو کیا حکم ہے ؟ کیا بطورِ قضا کے یہ نماز شمار کی جائے گی یا قضا دوبارہ پڑھنی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ سمجھ لیجئے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے اُس میں خاص طور پر  ادا یا قضا کی نیت کرنا ضروری نہیں ہوتا۔قضا نماز، ادا کی نیت سے اور ادا نماز، قضا کی نیت سے بھی درست ہوجاتی ہے۔اگر کوئی شخص اپنے گمان میں کسی نماز کا وقت باقی ہونے کی بنا  پر اُس نماز کو ادا کرے، جبکہ درحقیقت اس نماز کا وقت ختم ہوچکا ہو، تو ایسی صورت میں اس کی وہ نماز  بطورِ قضا درست  ہوجائے گی کہ اس نے قضا نماز کو  ادا کی نیت سے پڑھا ہے اور قضا نماز، ادا کی نیت کے ساتھ پڑھنے سے  بھی درست ہوجاتی ہے۔مگر یہ اس صورت میں ہے کہ جب اس نے    نماز کی ادائیگی میں خاص اُسی  نماز کی نیت کی ہو ، فرضِ وقت کی نیت نہ کی ہو،کیونکہ اگر کوئی شخص کسی نماز کا وقت ختم ہوجانے کےبعد ،اس  نماز کو فرضِ وقت کی نیت سے ادا کرے،یعنی نماز پڑھتے ہوئے یوں نیت ہوکہ میں اِس وقت کی فرض  نماز ادا کررہا ہوں ،تو ایسی صورت میں چاہے  وقت کا ختم ہوجانا اُس کے علم میں ہو یا نہیں ، بہر صورت اس کی وہ نماز ادا نہیں ہوگی، کیونکہ وقت ختم ہوجانے کے بعد  وہ نماز فرضِ وقت نہیں کہلائے گی ،بلکہ اب جس نماز کا وقت ہے،وہی اس کے لیے فرضِ وقت ہوگی۔

   اس تمہید کے بعد صورتِ مسئولہ کا جواب واضح ہوجاتاہے  کہ اگرکسی نے فجر کے وقت کو عشاء کا وقت سمجھتے ہوئے ،  عشاء کی نیت سے نماز ادا  کی، تو ایسی صورت میں  در حقیقت اس نے عشاء کی قضا نماز،ادا کی نیت سے پڑھی ،لہذا عشاء کی وہ قضا نماز،ادا کی نیت سے پڑھ لینے سے درست  ہوگئی اور بطورِ قضا کے شمار ہوجائے گی، دوبارہ   اس کی قضا کرنے کی حاجت نہیں۔ہاں ایسی صورت میں  اگر کوئی عشاء کی نماز، فرضِ وقت کی نیت سے ادا کرے، تو اب اس کی وہ  نماز درست نہیں ہوگی اور بطور ِقضا کے بھی شمار  نہیں  ہوگی ،کیونکہ جب  عشاء کا  وقت ختم  ہوکر، فجر کا وقت شروع ہوگیا،تو اب عشاء کی نماز تو فرضِ وقت نہ ہوئی ،بلکہ اب فرضِ وقت،  فجر کی نماز    ہوئی ،اور ظاہر ہےکہ فجر  کی نیت سے عشاء کی نماز درست نہیں ہوگی۔

   جان بوجھ کر یا وقت کی دیکھ بھال سے غفلت سے  نماز قضا  کرنا، گناہ  ہےاور اس گناہ سے توبہ بھی لازم ہوگی۔ 

   نماز میں ادا یا قضا کی نیت ضروری نہیں ،قضانماز ادا کی نیت سے اور ادا قضا کی نیت سے  بھی درست ہوجائے گی،جیسا کہ الاشباه والنظائر مىں ہے:’’وأما نية الأداء والقضاء ففي التتارخانية إذا عين الصلاة التي يؤديها صح۔ نوى الأداء أو القضاء وقال فخر الإسلام وغيره في الأصول في بحث الأداء والقضاء: أن أحدهما يستعمل مكان الآخر حتى يجوز الأداء بنية القضاء وبالعكس‘‘ ترجمہ: اوربہرحال  جہاں تک نماز میں ادا اور قضا کی نیت کی بات ہے، تو تتارخانیہ میں ہے کہ جو نماز ادا کررہا ہے جب اس کو معین کردیا تو وہ درست ہوجائے گی ،چاہےاس میں ادا کی نیت کرے یا قضا کی۔اور فخر الاسلام  اور دیگر فقہائے کرام نے اصول میں  ادا و قضا کی بحث میں  ارشاد فرمایا  کہ ادا و قضا دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے،یہاں تک کہ ادا،قضا کی نیت سے   اور اس کا عکس(یعنی قضا،ادا کی نیت سے)جائز ہے۔(الاشباہ والنظائر،القاعدۃ الثانیۃ،الرابع فی صفۃ المنوی،صفحہ32،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   کسی نمازکا وقت ختم ہونےکے بعد یہ گمان کیاکہ  وقت ابھی باقی ہے اور نماز پڑھ لی، تو وہ نماز بطورِ قضا کے درست ہوجائے گی،جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’في الأشباه عن الفتح: لو نوى الأداء على ظن بقاء الوقت فتبين خروجه أجزأه وكذا عكسه، ثم مثل له ناقلا عن كشف الأسرار بقوله: كنية من نوى أداء ظهر اليوم بعد خروج الوقت على ظن أن الوقت باق...والصحة فيه باعتبار أنه أتى بأصل النية، ولكن أخطأ في الظن والخطأ في مثله معفو عنه. اهـ. أقول: ومعنى كونه أتى بأصل النية أنه قد عين في قلبه ظهر اليوم الذي يريد صلاته فلا يضر وصفه له بكونه أداء أو قضاء‘‘ ملتقطاً۔ترجمہ: اشباہ میں فتح القدیرکے حوالے سے ہے کہ اگر  کسی نے اپنے گمان میں وقت باقی  ہونے کی بنا پر ادا نماز کی نیت کی،پھر نماز کے وقت کا نکل جانا اس پر ظاہر ہوا، تو اس کی وہ نماز ہوجائے گی، یہی اس کے عکس کا حکم ہے۔ پھر صاحبِ فتح القدیر نے کشف الاسرارکے حوالے سے اس کی مثال بیان کی،جیسے اس نمازی کی نیت جس نے وقت نکلنے کے بعد اسی  دن کی ظہر کی نیت کی، اس گمان پر کہ ابھی وقت باقی ہے (تو اس کی وہ ظہر کی قضا نماز، ادا کی نیت سے بھی درست ہوجائےگی)یہاں نماز کا درست ہوجانا اس اعتبار سے ہے کہ اس نے اصلِ نیت تو ادا کی، لیکن اس نے  گمان میں خطا کی، اور اس قسم کی خطا کو شرعاً معاف رکھا گیا ہے، الخ۔(علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ )میں کہتا ہوں کہ اس نے اصلِ نیت ادا کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دل میں اسی دن کی ظہرکی نماز  کو معین کیا کہ جس کے پڑھنے کا اس نے ارادہ کیا تھا،  پس اس نماز  کے وصف میں ادا یا قضاء کے اعتبار سے خطا کا ہونا مضر نہیں۔ (رد المحتارعلی الدر المختار، جلد2، کتاب الصلوٰۃ، صفحہ125 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”قضا یا ادا کی نیت کی کچھ حاجت نہیں، اگرقضا بہ نیتِ ادا پڑھی يا ادا بہ نیتِ قضا، تو نماز ہوگئی، یعنی مثلاً وقت ظہر باقی ہے اور اس نے گمان کیا کہ جاتا رہا اور اس دن کی نماز ظہر بہ نیت قضا پڑھی يا وقت جاتا رہا اور اس نے گمان کیا کہ باقی ہے اوربہ نیت ادا پڑھی ہوگئی۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ3، صفحہ495، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وقت نکلنے کے بعد،اگر فرضِ وقت کی نیت سے نماز ادا کی،تو وہ نماز درست نہیں ہوگی،جیسا کہ جوہرہ نیرہ میں ہے: ’’وفی النھایۃإنما يجزئه أن ينوي فرض الوقت إذا كان يصلي في الوقت أما بعد خروج الوقت إذا صلى وهو لا يعلم بخروجه فنوى فرض الوقت فإنه لا يجوز؛ لأن بعد خروج وقت الظهر كان فرض الوقت هو العصر وإذا نوى فرض الوقت كان ناويا للعصر وصلاة الظهر لا تجوز بنية العصر‘‘ ترجمہ: اور نہایہ میں ہے کہ  بیشک نمازی کے لیے جائز ہے کہ اگر وہ وقت میں نماز پڑھ رہا ہو، تو اس نماز میں فرضِ وقت کی نیت کرے ۔بہرحال وقت نکل  جانے کے بعد اگر نماز پڑھے اور اسے وقت کا نکل جانا معلوم نہ ہو اور وہ فرض وقت کی نیت کرے ،تو یہ جائز نہیں کیونکہ (مثلاً)ظہر کا وقت نکل جانے کے بعد،فرضِ وقت عصر کی نماز ہے، تو جب اس نے فرضِ وقت کی نیت کی، تو اس نے عصر کی نماز کی نیت کی   اور ظہر کی نماز ،عصر کی نیت سے جائز نہیں ہوگی۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد1،باب شروط الصلاۃ،صفحہ48،مطبوعہ خیریہ)

   رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:’’إن قرنه بالوقت، فإن في الوقت جاز وهو ما ذكره المصنف، وإن خارجه مع العلم بخروجه فقال ح لا يجوز. قلت: وهو المتبادر من قول الأشباه عن البناية لو نوى فرض الوقت بعدما خرج الوقت لا يجوز...وإن كان مع عدم العلم بخروجه لا يجوز لقول الزيلعي: يكفيه أن ينوي ظهر الوقت مثلا أو فرض الوقت والوقت باق لوجود التعيين، ولو كان الوقت قد خرج وهو لا يعلمه لا يجوز لأن فرض الوقت في هذه الحالة غير الظهر. اهـ. وفي التتارخانية: وإن صلى بعد خروج الوقت وهو لا يعلمه فنوى فرض الوقت لا يجوز وهو الصحيح‘‘ترجمہ:اگر نماز میں نیت کو وقت کے ساتھ ملایا،  تو اگر وقت کے اندر نماز پڑھ رہا ہے ،تو یہ جائز ہے اور یہ  وہی ہے جسے مصنف نے ذکر کیا،اور وقت نکل جانے کے بعد فرض وقت کی نیت کی،باوجود اس کے کہ اسے وقت کا نکل جانا معلوم ہے ،تو  حلبی نے فرمایا کہ یہ جائز  نہیں ہے۔میں(علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں کہ اشباہ میں  بنایہ کےحوالے سے جو قول ہے اس سے یہی متبادر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی نے وقت نکل جانے کے بعد،فرضِ وقت کی نیت کی تو جائز نہیں۔۔۔اور اگر وقت کا نکل جانا معلوم نہ ہو  تو(بھی) جائز نہیں  زیلعی کے قول کی وجہ سے:کہ  اگر کوئی مثلاً ظہرِ وقت کی نیت کرے یا فرضِ وقت کی نیت کرے اور وقت باقی ہو، تو تعیین کے پائے جانے کی وجہ سے  یہ کافی ہے اور اگر وقت نکل چکا ہو اور اسے معلوم نہ ہو، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اس حالت میں فرضِ وقت ظہر کی نماز نہیں۔اور تتارخانیہ میں ہے کہ اگر وقت نکل جانے کے  بعد نماز پڑھی اور اسے وقت کا نکلنا معلوم نہیں تھا اور اس نے فرضِ وقت کی نیت کی تو یہ جائز نہیں اور یہی صحیح ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد2،کتاب الصلاۃ، صفحہ123،دار المعرفہ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’اگر وقت نماز ختم ہوچکا اور اس نے فرض وقت کی نیت کی، تو فرض نہ ہوئے ،خواہ وقت کا جاتا رہنا اس کے علم میں ہو یا نہیں۔‘‘(بھارِ شریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ493،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم