Jamaat Ke Doran Saf Mein Seedhi Janib Khare Hona Afzal Hai Ya Ulti Janib ?

صف میں دائیں جانب کھڑے ہونا افضل ہے یا بائیں جانب؟

مجیب: محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: 7308Pin-

تاریخ اجراء: 26ربیع الاول1445ھ13اکتوبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دورانِ جماعت صف کی دائیں جانب کھڑے  ہونا افضل ہے یا بائیں جانب؟بعض اوقات بعد میں آنے والے مقتدیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ دائیں جانب ہی کھڑے ہوں،جس کی وجہ سے اس طرف نمازی زیادہ اور بائیں جانب کم ہوجاتے ہیں اور کئی بار باہر سے آنے والوں کو جو جانب قریب لگتی ہے،وہ اسی طرف کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔برائےکرم  اس بارے میں  شرعی رہنمائی  فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مقتدیوں کے لیے بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ امام کی دونوں جانب صف برابر رکھیں،کیونکہ نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تم امام کو درمیان میں رکھو۔‘‘اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مقتدی امام کے پیچھے، اس کی سیدھ میں کھڑا ہو اور بقیہ اس کی دونوں جانب برابر برابر۔پھر اگر امام کی دونوں جانب نمازی برابر ہوں،تو دائیں جانب کھڑے ہونا افضل ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تم امام کی دائیں جانب کو اختیار کرو  اور اللہ پاک اور اس کے فرشتے دائیں  جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔‘‘البتہ اگر دائیں جانب لوگ زیادہ ہوں اور بائیں جانب کم ،تو اس صورت میں  بائیں جانب ہی کھڑے  ہونا افضل ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے امام کی بائیں جانب کو آباد کیا،اسے دُگنا اجر ملے گا۔‘‘لہذا مسجد میں موجود یا بعد میں آنے والے تمام مقتدیوں کو چاہئے  کہ  وہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق ہی صف بنائیں،تاکہ زیادہ ثواب حاصل ہوسکے۔البتہ اگر مقتدیوں نے اس طرح صف نہ بنائی ،مثلاً کسی ایک جانب زیادہ نمازی کھڑے ہوگئے،تب بھی نماز ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔

مذکورہ حکم پر احادیث:

   مقتدیوں کو دونوں جانب صف برابر رکھنے کا حکم ہے۔چنانچہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ،وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’توسطوا الامام وسدوا الخلل‘‘ ترجمہ:امام کو درمیان میں رکھو اور صفوں میں کشادگی کو ختم کرو۔(السنن الکبریٰ للبیھقی،ج3،ص147،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   دونوں جانب نمازی برابر ہونے کی صورت میں دائیں جانب کھڑا ہونا افضل ہے۔چنانچہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’علیکم بمیامن الصفوف وایاکم وما بین السواری وعلیکم بالصف الاول‘‘ترجمہ:صفوں کی دائیں جانب کو لازم پکڑو،ستونوں کے درمیان صف بنانے سے بچو اور پہلی صف کو اختیار کرو۔(مصنف عبد الرزاق،ج2،ص58،مطبوعہ المکتب الاسلامی،بیروت)

   اسی بارے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ان اللہ وملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف‘‘ترجمہ:بے شک اللہ پاک اور اس کے فرشتے سیدھی جانب والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔(سننِ ابی داؤد،کتاب الصلوۃ،تفریع ابواب الصفوف،ج1،ص181،مطبوعہ بیروت)

   بائیں جانب نمازی کم ہوں،تو اسی جانب کھڑا ہونا افضل ہے۔چنانچہ حضرتِ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:’’قيل للنبی صلى اللہ عليه وسلم:ان ميسرة المسجد تعطلت،فقال النبی صلى اللہ عليه وسلم : من عمر ميسرة المسجد كتب له كفلان من الاجر‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!مسجد کی بائیں جانب ویران ہو گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو مسجد کی بائیں جانب کو آباد کرے گا،اس کے لیے دُگنا اجر لکھا جائے گا۔(ابنِ ماجہ،ج1،ص321،مطبوعہ دار احیاء الکتب العلمیہ)

مذکورہ حکم پر جزئیات:

   نماز میں صف کیسے بنائی جائے اور کس وقت کس جانب کھڑے ہونے کا حکم ہے؟اس بارے میں  حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’ويقف الاكثر من واحد‘‘صادق بالاثنين وكيفيته ان يقف واحد بحذائه والآخر عن يمينه ولو جاء واحد وقف عن يسار الاول الذی هو بحذاء الامام فيصير الامام متوسطا ويقف الرابع عن يمين الواقف الذی هو عن يمين من بحذاء الامام والخامس عن يسار الثالث وهكذا،فاذا استوى الجانبان يقوم الجائي عن جهة اليمين وان ترجح اليمين يقوم عن يسار‘‘ترجمہ:ایک سے زائد مقتدی (امام کے پیچھے)کھڑے ہوں گے۔ایک سے زائد کہنا دو پر بھی صادق آتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک امام کے پیچھے اس کی سیدھ میں  اور دوسرا اس کی دائیں جانب کھڑا ہو گااور اگر ایک اور آجاتا ہے،تو وہ امام کی سیدھ میں کھڑے ہونے والے پہلے مقتدی کی بائیں جانب کھڑا ہو گا،اس طرح امام ان کے درمیان میں ہو جائے گا اور چوتھا امام کے پیچھے والے مقتدی کی سیدھی جانب کھڑے ہونے والے کی دائیں جانب اور پانچواں تیسرے نمبر پر آنے والے کی دائیں جانب کھڑا ہو گااور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔پس اگر دونوں جانب کے مقتدی برابر ہوں،تو بعد میں آنے والا سیدھی جانب کھڑا ہو گا اور اگر دائیں جانب زیادہ مقتدی ہوں،تو وہ بائیں جانب کھڑا ہو جائے گا۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص305،مطبوعہ کراچی)

   اور مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’واذا خلا اليسار عن المصلين يصير افضل من اليمين مراعاة للطرفين‘‘ ترجمہ:جب بائیں جانب، نمازیوں سے خالی ہو،تو دونوں جانبوں کی رعایت کرتے ہوئے بائیں  جانب، دائیں جانب سے افضل ہو جائے گی۔(مرقاۃ المفاتیح،ج3،ص852،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   اورمفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا:’’اگر امام کی داہنی جانب مقتدی زیادہ ہوں اور بائیں جانب کچھ کم ہوں یا دونوں جانب برابر ہوں، تو نئے آنے والے مقتدی کو کہاں کھڑا ہونا چاہئے؟‘‘

   تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’بائیں جانب مقتدی کچھ کم ہوں ،تو آنے والے مقتدی کو بائیں جانب کھڑا ہونا افضل ہے کہ وہ اقرب  الی الامام ہے اور دونوں جانب برابر ہونے کی صورت میں داہنی جانب کھڑا ہونا افضل ہے۔‘‘ (فتاوی فیض الرسول،ج1،ص344تا345،مطبوعہ شبیر برادرز ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم