Jandar Ki Tasweer Wale Libas Mein Namaz Parhna

جاندار کی تصویر والے لباس میں نماز پڑھنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2228

تاریخ اجراء: 15جمادی الاول1445 ھ/30نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جس لباس پر جاندار کی تصویر ہو،اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟نیز اگر جاندار کی   تصویر والے لبا س  کے اوپر کوئی دوسرا کپڑا ڈھک کر نماز پڑھی جائے،تو اب نماز کا کیا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس  لباس پرجاندار کی ایسی  تصویر ہو جس میں اُس کا چہرہ موجود ہو اور وہ  تصویر اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو  چہرہ واضح ہو  تو  ایسا لباس  پہننا شرعاً جائز نہیں،اور ایسے لباس میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی  ہے جس کو دوبارہ   پڑھنا    واجب ہے۔البتہ  اگر وہ  تصویر مٹادی جائے یا اُس کا  سر یا    چہرہ مکمل کاٹ دیا جائے یا اُس پر سیاہی وغیرہ کوئی رنگ لگادیا جائے جس سے اس کا  سر یا  چہرہ مٹ جائے،یا  اُس تصویر والے  لباس پر کوئی  دوسرا کپڑا پہن یا اوڑھ لیا جائے  جس سے وہ تصویر چھپ جائےتو اب  نماز مکروہ تحریمی   نہ ہوگی۔

   تنویر الابصار مع در مختار  میں ہے:’’(ولبس ثوب فیہ تماثیل)ذی روح۔۔۔لا یکرہ(لو فی یدہ)عبارۃ الشمنی  بدنہ ؛لانھا مستورۃ بثیابہ (أو علی خاتمہ)بنقش غیر مستبین ۔قال فی البحر ومفادہ کراھۃ المستبین لا المستتر  بکیس أو صرۃ  أو ثوب آخر(أو کانت صغیرۃ)لا تتبین تفاصیل اعضائھا للناظر قائما،وھی علی الارض(أو مقطوعۃ الرأس أو الوجہ)‘‘ملتقطاً۔ ترجمہ:اور ایسا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا، مکروہ تحریمی ہے جس میں جاندار کی تصویر ہو۔۔۔اور اگر نمازی کے  ہاتھ پر تصویر  ہو،شمنی کی عبارت  میں ہے  نمازی کے بدن  پر ہو تو نماز مکروہ نہ ہوگی کیونکہ یہ کپڑوں سے چھپی ہوئی ہے ۔یا تصویر انگوٹھی پر ہو ایسے نقش کے ساتھ جو واضح نہ ہو۔بحر میں فرمایا کہ اس (یعنی تصویر کے چھپ جانے والی) علت کا مفاد یہ ہے کہ کراہت نظر آنے والی تصویر میں ہے، نہ کہ اُس تصویر میں جو بٹوے یا تھیلی یا دوسرے کپڑے سے چھپی ہو۔(یونہی نماز مکروہ نہ ہوگی  اس صورت میں کہ) وہ تصویر چھوٹی ہو کہ جس کے اعضاء کی تفصیل کھڑے ہوکر دیکھنے والے پر ظاہر نہ ہو،اس حال میں کہ  تصویر زمین پر ہو۔یا وہ تصویر ایسی ہو کہ اُس کا سر یا چہرہ کاٹ دیا گیا ہو ۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد1،صفحہ504-502،مطبوعہ :کوئٹہ)

   در مختار کی مذکور عبارت’’أو ثوب آخر ‘‘کے تحت رد المحتار میں ہے:’’بان کان فوق الثوب  اللذی فیہ صورۃ، ثوب ساتر لہ فلا تکرہ الصلاۃ فیہ  لاستتارھا الثوب ‘‘ترجمہ:یعنی جس کپڑے میں تصویر ہو،اس کے اوپر کوئی ایسا کپڑا ہو جو اس تصویر کو چھپانے  والا ہو تو اب (دوسرے)کپڑے کے اُس تصویر کو چھپادینے کی وجہ سے ، تصویر والے کپڑے میں نماز مکروہ نہ ہوگی۔(رد المحتار علی الدرالمختار،جلد1،صفحہ504،مطبوعہ: کوئٹہِ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں ارشاد  فرماتے ہیں :’’ کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا ، پہنانا یا بیچنا ، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔  ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹادی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کردیا جائے ، اس کے بعد اس کا پہننا ، پہنانا ، بیچنا ، خیرات کرنا ، اس سے نماز ، سب جائز ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہو کہ مٹ نہ سکے، دھل نہ سکے تو ایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سر یا چہرے پر اس طرح لگادی جائے کہ تصویر کا اتنا عضو محو ہوجائے صرف یہ نہ ہو کہ اتنے عضو کا رنگ سیاہ معلوم ہو کہ یہ محو ومنافی صورت نہ ہوگا۔ “(فتاویٰ رضویہ ، جلد24 ،صفحہ 567،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم