Jis Shehar Mein Mulazmat Ki Wajah Se Rehta Ho Wo Shehar Watan Asli Nahi

جس شہرمیں ملازمت وغیرہ کی غرض سے رہتا ہو وہ وطن اصلی نہیں

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:119

تاریخ اجراء: 19محرم الحرام1444ھ/18اگست2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ  میں ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کرتا ہوں اور ملازمت میں ایک جگہ پر  چند سال رہنے کے  بعد ہماری  دوسری جگہ پوسٹ ہو جاتی ہے،مگر میں  جہاں بھی   رہتا ہوں ، میرے اہل و عیال بھی ساتھ ہوتے ہیں اور رہائش وغیرہ  کی تمام سہولیات میسر  ہوتی ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں میں نے اہل و عیال  کے ساتھ چند سال رہنا ہو، وہ میرے لیے وطنِ اصلی قرار پائے گی یا نہیں اور نمازوں کے متعلق کیا احکام ہوں گے ؟  اکثر جس جگہ پوسٹ ہوتی ہے وہ میرے  آبائی علاقے سے 92 کلومیڑ کی مسافت سے زیادہ ہوتی ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس جگہ آپ کی پوسٹ ہوتی ہے، وہ آپ کے لیے وطنِ اصلی نہیں بنے گی ، اگرچہ اہل و عیال ساتھ رہتے ہوں  اور رہائش وغیرہ  کی سہولیات بھی میسر  ہوں، کیونکہ وہاں آپ  کا قیام عارضی ہوتا ہے ،مستقل نہیں  اور جو جگہ انسان کی جائے ولادت نہ ہواور نہ ہی وہاں مستقل رہنے کا ارادہ ہو، تو شرعاً  وہ جگہ اس کے لئے وطن اصلی نہیں ہوتی   ،  نیز جب آپ کی ملازمت کی جگہ آپ کے  آبائی علاقے سے 92 کلومیڑ کی مسافت سے زیادہ ہوتی ہے ، تو  اس صورت میں نماز  کے متعلق درج ذیل احکام ہوں گے ۔

   (1)جب جب  وہاں پندرہ د ن یا اس سے زائد رہنے کی نیت ہو گی ،تو وہ جگہ آپ کی وطنِ اقامت بن جائے گی اور آپ مکمل نماز  ادا کریں گے ، قصر  نہیں پڑھیں گے   ۔

   (2) اور جب پندرہ دن سے کم رہنے  کی نیت  ہو  گی ، تو آپ شرعی مسافر ہو ں گے  ، لہٰذا اکیلے نماز پڑھنے  کی صورت میں قصر نماز واجب  ہو گی، یعنی چار رکعت والے فرض دو ادا کرنا ہوں گے  ۔

   وطن اصلی کی تعریف کے بارے میں تنویرالابصار و درمختار مع رد المحتار میں ہے: الوطن الاصلی ھو موطن ولادتہ او تاھّلہ ای تزوجہ او توطنہ ای عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال۔ملخصاً    ترجمہ: وطن اصلی وہ کہ جہاں اس کی  پیدائش ہوئی  ہو یا اس نے وہاں شادی کر لی ہویا اسے اپنا وطن  بنا لیا ہو، یعنی  اب وہاں ہمیشہ رہنے  اور اس جگہ کو نہ چھوڑنے کا ارادہ کر لیاہو۔  (تنو یر الابصارو درمختار ، جلد 2،صفحہ 739،مطبوعہ کوئٹہ)

   اور جس جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد رہنا ہو، وہ  وطن اقامت ہو گا، جیساکہ وطن اقامت کی تعریف  کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے :”وطن سفر وقد سمي وطن إقامة وهو البلد الذي ينوي المسافر الاقامة فيه خمسة عشر يوما أو أكثرترجمہ :  اور وطنِ سفر اور اسی کو وطن اقامت بھی کہا جاتا ہے یہ وہ   شہر  (یا علاقہ )ہے، جس میں مسافر پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت کرے ۔ )فتاوى عالمگیری،  جلد1،  صفحہ157،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت(

   اور  جہاں پندرہ دن یا اس سے زائد رہنا ہو، وہاں پوری نماز ادا کرنا ہو گی ،  ورنہ  قصر کرنا ہوگی۔جیساکہ تنویر الابصار و درمختارمیں ہے:”(او ینوی اقامۃ نصف شھرینوی بموضع) واحد (صالح لھا، فیقصرفی اقل منہ)۔ ملخصاًترجمہ:یا(مسافرتب مقیم ہوگا)جب اس نےایسی ایک ہی جگہ جو اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو ، اس پرآدھا مہینا (پندرہ دن )ٹھہرنے کی نیت کی ہو،لہٰذا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی صورت میں قصرکرےگا۔)تنویر الابصار و الدرالمختار ، جلد2،صفحہ 728،مطبوعہ  کوئٹہ(

   وطنِ اقامت باطل ہونے کی تفصیل کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے :ووطن الاقامة يبطل بوطن الاقامة وبانشاء السفر وبالوطن الأصلي‘‘ ترجمہ :  اور وطنِ اقامت  ، وطن اقامت اور سفر شروع کرنے سے اور وطن اصلی سے باطل ہو جاتا ہے ۔ )فتاوى عالمگیری ، جلد1،  صفحہ157،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت(

   اور مسافرپرقصر پڑھنا لازم ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے :ان اللہ تعالی فرض الصلوۃ علی لسان نبیکم علی المسافر رکعتین وعلی المقیم اربعا“ترجمہ: اللہ عزوجل نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے مسافرپردورکعتیں فرض کیں اورمقیم پرچاررکعتیں۔ )الصحیح المسلم،کتاب صلاۃ المسافرین، صفحہ 150،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت(

   علامہ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1004ھ) لکھتے ہیں:صلی الفرض الرباعی رکعتین وجوبا“ترجمہ: مسافرکے لئے چار فرض کے بجائے دورکعت فرض پڑھنا واجب ہے۔(تنویر الابصار  مع الدر المختار ، جلد 2، صفحہ 726، مطبوعہ کوئٹہ)

   جس شہرمیں ملازمت  وغیرہ کی غرض سے رہتا ہو ، اُس کے   وطنِ اصلی نہ ہونے کے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے  سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے  ہیں:جب کہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے،نہ وہاں اس نے شادی کی،نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں  رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا،بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی ،اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ، اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجتِ اقامت  بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہِ خاص سے ہے،نہ مستقل و مستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا ، جب تک15 دن کی نیت نہ کرے گا، قصر ہی پڑھے گا کہ وطنِ اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے ۔“)فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ271 ، 272،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن،لاہور(

        مزید ایک مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جب کہ مسکن زید کا دوسری جگہ ہے اور بال بچوں کا یہاں رکھنا عارضی ہے ،تو جب یہاں آئے گا اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کرے گا ،قصر کرے گا اور پندرہ دن یا زیادہ کی نیت سے مقیم ہو جائے گا ،پوری نماز پڑھے گا۔(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ270،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم