Jumma Ka Waqt Shuru Hone Ke Bad Namaz Parhe Baghir Safar Par Jana Kaisa ?

وقتِ جمعہ شروع ہونےکےبعد نماز پڑھے بغیر سفرپر جانا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor.11909

تاریخ اجراء:       05جمادی الاولی1443 ھ/10دسمبر2120 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بہارِ شریعت ،ج1،حصہ4،ص776،مسئلہ نمبر71 میں یہ بات مذکور ہے:”جمعہ کے دن اگر سفر کیا اور زوال سے پہلے آبادی شہر سے باہر ہوگیا، تو حرج نہیں ورنہ ممنوع ہے۔“یہاں ممانعت سے مراد کراہت ہے یا کچھ اور نیزاگر کراہت مراد ہے، توکراہتِ تنزیہی ہے یا تحریمی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جمعہ کے دن جب وقتِ جمعہ شروع ہوچکا ،تو اس صورت میں سفر کرنےکے حوالے سے جوممانعت کتبِ فقہ میں مذکور ہے،اس سے مراد کراہتِ تحریمی ہے،یعنی وقتِ جمعہ شروع ہونے کے بعدجمعہ پڑھےبغیر سفر پر روانہ ہونا، جائز نہیں،روانہ ہوگا ،تو  گنہگار ہوگا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ راجح قول کے مطابق جمعہ کے دن سفر کرنے میں ظہر کاوقت شروع ہونے کا اعتبار ہے،کیونکہ جمعہ کی نماز عام نمازوں کی طرح نہیں، مطلب یہ کہ جس طرح عام نمازوں میں  کئی مسائل کےحوالےسےاختتامِ وقت کا اعتبارہوتا ہے،جمعہ کا حکم راجح قول کے مطابق اس معاملہ میں مختلف ہے، نیز عام نمازیں تنہا بھی پڑھی جا سکتی ہیں،لیکن جمعہ کا معاملہ اس طرح نہیں ،کیونکہ جمعہ تنہا نہیں پڑھ سکتے،جمعہ کے لیے جماعت شرط ہے،نیزقرآن پاک،سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر9کے مطابق اذانِ جمعہ ہونے پرجمعہ کےلیےسعی یعنی تیاری کرناواجب ہے اورخریدوفروخت،کام کاج الغرض سعی میں رکاوٹ ڈالنےوالا ہرکام چھوڑ دینا بھی واجب  ہے، ہاں جمعہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے کوئی آدمی سفر کرتا ہوا شہر کی آبادی سے باہر ہوجائے ،تو اب مسافر ہونے کے سبب اس پر جمعہ واجب نہ رہا۔

   اذانِ جمعہ ہونے پرجمعہ کے لیے سعی واجب ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ     ؕذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ترجمہ کنزالایمان : ’’اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تواللہ کے ذکر کی طرف دوڑواور خرید و فروخت چھوڑ دو،یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔‘‘(پارہ28،سورۃ الجمعہ،آیت09)

   مذکورہ آیت کی تفسیر میں صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’اذان سے مراد اذانِ اوّل ہے،نہ اذانِ ثانی جو خطبہ سے متصل ہوتی ہے، اگرچہ اذانِ اوّل زمانۂِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اضافہ کی گئی، مگر وجوبِ سعی اور ترکِ بیع و شراء اسی سے متعلق ہے۔(کذافی الدرالمختار)دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کےلیے تیاری شروع کردو اور ذکراللہ سے جمہور کے نزدیک خطبہ مراد ہے ۔“ (تفسیرخزائن العرفان،ص1025،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   جمعہ کے دن کوئی شخص سفر کرتے ہوئےدوپہرسے پہلےآبادیِ شہر سے باہر ہوجائے،توحرج نہیں، ورنہ مکروہ ہے،جیساکہ حاوی قدسی،حلبی کبیری،شرح عمادی اوردرّمختارمیں ہے:واللفظ لشرح المنیۃ:يكره السفر بعد الزوال یوم الجمعۃ قبل ان يصليها ولا يكره قبل الزوالترجمہ: زوال کے بعد جمعہ ادا کرنے سے پہلے سفر پر نکلنا مکروہ ہے ،البتہ قبل از زوال نکلنا مکروہ نہیں ۔(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ،ص486،مطبوعہ کوئٹہ)

   جمعہ کے دن دوپہر کے بعد سفر پر روانہ ہونا،مکروہ ہے،یہاں کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے،جیساکہ حلبی کبیر کی مذکورہ عبارت درِّمختار میں بھی مذکور ہے،اس کے تحت طوالع الانوارمیں ہے:قال الشیخ الرحمتی فعلم ان المراد بالکراھۃ التحریمیۃیعنی یہاں کراہت سے مرادکراہتِ تحریمی ہے۔(طوالع الانوار شرح الدرّ المختار،باب الجمعۃ ،ج2،ص515،مخطوط)

   شیخ الاسلام والمسلمین ،امام اہلسنت ،امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے ایک شخص کے متعلق سوال ہواجو جمعہ کے روز سفر کر کے شہر سے باہر چلا جاتا ہے ،تو آپ علیہ الرحمۃ نےارشاد فرمایا :”اگر وہ ٹھیک دوپہر ہونے سے پہلے شہر کی آبادی سے نکل جاتا ہے ،تو اس پر اصلاً کچھ الزام نہیں اور اگر اسے شہر ہی میں وقت جمعہ ہوجاتا ہے،اس کے بعد بے پڑھے چلاجاتا ہے، تو ضرور گنہگار ہے۔۔۔فتاوی  ظہیریہ وغیرہ شروح و درمختار وغیرہما میں ہے:’’الصحیح انہ یکرہ السفر بعد الزوال قبل ان یصلیھاولا یکرہ  قبل الزوال‘‘(یعنی)صحیح یہ ہے کہ زوال کے بعد جمعہ ادا کرنے سے پہلے سفر پر نکلنا مکروہ ہے، البتہ قبل از ز وال نکلنا مکروہ نہیں ۔ (ت)         (فتاوی رضویہ،ج8،ص 459، رضافاؤنڈیشن،  لاھور)

   راجح قول کے مطابق جمعہ کے دن سفر کرنے میں وقت داخل ہونے کا اعتبار ہے، جیساکہ درّمختارمیں ہے:” لا باس بالسفر يومها اذا خرج من عمران المصر قبل خروج وقت الظهر كذا فی الخانية لكن عبارة الظهيرية وغيرها بلفظ  دخول  بدل خروج وقال فی شرح المنية: و الصحيح انه يكره السفر بعد الزوال قبل ان يصليها ولايكره قبل الزوال“یعنی جمعہ کے دن سفر کرنے میں حرج نہیں جبکہ وہ وقتِ ظہر ختم ہونے سے پہلےپہلےشہر کی آبادی سےنکل جائے ۔اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے، لیکن ظہیریہ وغیر دیگر کتب کی عبارات میں خروجِ وقت کے بجائے دخولِ وقت کے الفاظ ہیں اور شرح منیہ(یعنی حلبی کبیر)میں فرمایا:زوال کے بعد جمعہ کی نماز پڑھنےسےپہلے سفر پر نکلنا مکروہ ہے، البتہ قبل از زوال نکلنا مکروہ نہیں ۔

   اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:”( قوله لا باس بالسفر الخ )اقول : السفر غير قيد بل مثله ما اذا اراد الخروج الى موضع لا تجب على اهله الجمعة كما فی التتارخانية (قوله كذا فی الخانية) وذكر مثله فی التجنيس وقال انه استشكله شمس الائمة الحلوانی بان اعتبار آخر الوقت انما يكون فيما ينفرد بادائه والجمعة انما يؤدّيها مع الامام والناس  فينبغی ان يعتبر وقت ادائهم حتى اذا كان لا يخرج من المصر قبل اداء الناس ينبغی ان يلزمه شهود الجمعة ا هـ قلتُ: وذكر فی التتارخانية عن التهذيب اعتبار النداء قيل الاول وقيل الثانی واعتمده فی الشرنبلالية(قوله : وقال فی شرح المنية) تأييد لما فی الظهيرية افاد به ان ما فی الخانية ضعيف ط وعلله فی شرح المنية بقوله لعدم وجوبها قبله وتوجه الخطاب بالسعی اليها بعده“یعنی میں کہتا ہوں کہ صرف سفر والی صورت خاص نہیں ،بلکہ اس صورت کہ جب آدمی شہر سے ایسی جگہ کی جانب روانہ ہو، جہاں کے لوگوں پر جمعہ واجب نہیں،اس کا بھی یہی حکم ہوگا، جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے۔ فتاوی قاضی خان والی بات( کہ اصل اعتبار خروجِ وقت کا ہے)التجنیس والمزید میں بھی لکھی ہے، لیکن صاحبِ ہدایہ نے اس میں یہ بھی فرمایا کہ امام شمس الائمہ حلوانی علیہ الرحمۃ نے خروجِ وقت والے موقف پر اعتراض وارد کیا کہ آخروقت کا اعتبار ان نمازوں میں ہے،جو تنہا بھی ادا کی جاسکتی ہوں ،جبکہ جمعہ امام اور لوگوں کے ساتھ ہی ادا ہوسکتا ہے، لہذا جمعہ میں لوگوں کے جمعہ ادا کرنے کے وقت کا اعتبار ہونا چاہئے، یہاں تک کہ جو شخص (جمعہ کا وقت شروع ہونےکے بعد)لوگوں کے جمعہ پڑھنے سے قبل ابھی شہر سے باہر نہیں نکلا، تو اس پر جمعہ پڑھنا لازم ہونا چاہئے،میں (یعنی علامہ شامی) کہتا ہوں:تاتارخانیہ میں تہذیب کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ اعتبار اذانِ جمعہ کا ہے ،پھرکہا گیا کہ اذان اول معتبر ہے اور کہا گیا کہ اذان ثانی معتبر ہے اور علامہ شرنبلالی نے حاشیہ درر غرر میں اسی قول  پر اعتماد فرمایا ہے۔(علامہ سید احمد طحطاوی نےفرمایا کہ)شرح منیہ والی بات فتاوی ظہیریہ کے موقف کی تائید ہے اور صاحبِ در نےشرح منیہ والی عبارت ذکر کرکے یہ فائدہ بتایا کہ فتاوی قاضی خان والا موقف کمزور ہےاور شرح منیہ میں اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ زوال سے قبل سفر پرروانہ ہونا،جائز اس لیے ہے کہ قبلِ زوال جمعہ کا وجوب نہیں،جمعہ کی طرف سعی کا خطاب تو بعدِ زوال متوجہ ہوتا ہے۔ (الدرّ المختار وردّ المحتار،ج3،ص44،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم