Jumma Ke Baad Ki 4 Sunnatain Muakkadah Hain Ya Ghair Muakkadah ?

جمعہ کے بعد کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں یا غیر مؤکدہ ؟

مجیب: ابو حمزہ  محمد  حسان عطاری

مصدق: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-277

تاریخ اجراء: 05 رجب المرجب5144ھ/17جنوری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  جمعہ کے بعد کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں یا غیر مؤکدہ ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کتب احناف میں جمعہ کے بعد کی چار رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

   نور الایضاح میں  ہے: ’’سن سنة مؤكدة ركعتان قبل الفجر وركعتان بعد الظهر وبعد المغرب وبعد العشاء وأربع قبل الظهر، وقبل الجمعة وبعدها بتسليمة ‘‘ ترجمہ :   فجر سے پہلے دو رکعات ،  ظہر کے بعد دو رکعات ، مغرب کے بعد دو رکعات ،  عشاء کے بعد دو رکعات ،  ظہر سے پہلے چار کعات ، جمعہ سے پہلے چار  رکعات ،  اور جمعہ کے بعد چار  رکعات  ایک سلام سے پڑھنا  سنت مؤکدہ ہے  ۔( نور الایضاح  و مراقی الفلاح ،  فصل فی  بیان النوافل ، صفحہ  301 ، دار الکتب العلمیہ، بیروت )

   مختصر الوقایہ میں  سنن رواتب میں جمعہ کے بعد کی چار رکعتوں کو بھی شمار کیا، اس پر  محقق فاضل عبد العلی برجندی  رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’اعلم ان ھذہ السنن  من المؤکدات  لا یجوز  ترکھا  الا من  عذر‘‘ترجمہ :  تو جان کہ ان سنن مؤکدہ کو بغیر عذر کے ترک کرنا درست نہیں۔(  البرجندی  شرح المختصر الوقایہ  ، الجزء الاول ، صفحہ 136 ، مطبوعہ  کوئٹہ )

   علامہ  علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’(وسن) مؤكدا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ‘‘ ترجمہ :  ظہر  سے پہلے ،  جمعہ سے پہلے، اور جمعہ کے بعد چار  رکعات ایک سلام کے ساتھ    پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ،  لہذا اگر  دو سلام سے پڑھی  تو سنت مؤکدہ کے قائم مقام نہیں ہوں گی  ۔( در مختار  مع رد المحتار ، جلد 2 صفحہ 12 ،مطبوع دار الفکر  بیروت  )

   اسی طرح طوالع الانوار  میں علامہ عابد سندھی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’ثنتا عشرة ركعة فی کل یوم و لیلۃ وفي يوم الجمعة أربع عشرة ركعة‘‘ دن  ورات میں  بارہ رکعات سنت مؤکدہ ہیں  اور جمعہ کے دن  14 رکعات سنت ہیں  ۔(طوالع الانوار  ، صفحہ 242 ، مخطوطہ )

   صاحب بحر الرائق     جمعہ کے بعد کی چار  رکعات کے  سنت ہونے پر  استدلال کرتے ہوئے   فرماتے ہیں:’’الدلیل  على استنان الأربع بعدها ما في صحيح مسلم عن أبي هريرة مرفوعا "إذا صلى أحدكم الجمعة فليصل بعدها أربعا" وفي رواية "إذا صليتم بعد الجمعة فصلوا أربعا‘‘ ترجمہ : جمعہ کے بعد کی چار رکعات کے سنت ہونے کی  دلیل وہ حدیث  ہے جو صحیح مسلم  میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے  مرفوعا    روایت ہے  کہ :جب  تم میں سے کوئی ایک  جمعہ پڑھے  ، تو اس کے بعد  چار رکعات  پڑھے،اور ایک روایت میں ہے کہ  جب تم  جمعہ  کے بعد   نماز پڑھو،  تو  چار رکعات پڑھو  ۔

   اس کے تحت منحۃ الخالق میں علامہ  ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ ( متوفی 1252 ھ ) فرماتے ہیں:’’الحديث الأول يدل على الوجوب والثاني على الاستحباب فقلنا بالسنة مؤكدة جمعا بينهما كذا أفاده في شرح المنية وفي الشرنبلالية ‘‘ ترجمہ : پہلی حدیث پاک   (ان چار رکعات )  کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے  اور دوسری حدیث پاک ان کے مستحب ہونے پردلالت  کرتی  ہے  ،لہذا ہم نے اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا قول کیا  ان دونوں  روایتوں  میں تطبیق دیتے ہوئے  ، جیساکہ شرح  منیہ میں ،  اور   شرنبلالیہ میں اس کا افادہ فرمایا۔( بحر الرائق و منحۃ الخالق ،  جلد 2 ،کتاب الصلاۃ ،  صفحہ 87 ، مطبوعہ دارا لکتب العلمیہ  ، بیروت )

   الاشباہ والنظائر میں ہے :’’(  و)السنن (الرواتب  فی صلاۃ الجمعۃ   اربع  قبلھا  واربع  بعدھا   ) بتسلیمۃ  ولو نذرھا لایخرج  عنہ بتسلمتین ‘‘ ترجمہ :  جمعہ کے دن سنت مؤکدہ ،چار جمعہ سے پہلے ہیں اور  چار جمعہ کے بعد ہیں   ایک سلام کے ساتھ، لہذا اگر    ان کی منت مانی،  تو دو  سلام سے ادا کرنے کی صورت میں منت پوری نہیں ہوگی ۔  ( الاشباۃ والنظائر  مع  التحقیق الباھر  ، جلد 1 ، صفحہ 417 ، مطبوعہ  دار اللباب )

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی  اعظمی رحمہ اللہ تعالینے بھی اس کو سنت مؤکدہ میں ہی شامل کیا ہے  ،آپ فرماتے ہیں:’’ سنت مؤکدہ یہ ہیں۔     (۱) دو رکعت نما زفجر سے پہلے     (۲) چار ظہر کے پہلے، دو بعد     (۳) دو مغرب کے بعد     (۴) دو عشا کے بعد اور     (۵) چار جمعہ سے پہلے، چار بعد یعنی جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والے پر چودہ رکعتیں ہیں اور علاوہ جمعہ کے باقی دنوں میں ہر روز بارہ رکعتیں۔( بھار  شریعت ، جلد 1 ، حصہ 4 ، صفحہ  663 ، مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ )

   خلیل العلما ء مفتی خلیل میاں برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :’’ جمعہ سے پہلے چار  ، اور جمعہ کے بعد چار  اور بعض روایات میں  دو  ۔ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ  نے دونوں  کو جمع  فرما کر  حکم دیا  کہ جمعہ کے بعد چھ رکعات  سنت مؤکدہ ہیں ۔معلوم ہوا کہ چار تو بالاتفاق  سنت مؤکدہ ہیں ۔‘‘(فتاوی خلیلیہ  ، جلد 1 ، صفحہ  407 ، مطبوعہ  ضیاء القرآن  پبلی کیشنز )

   اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے جمعہ کے بعد پڑھی جانے والی سنتوں کا مستحب ہونا ارشاد فرمایا، جیساکہ ارشاد فرماتے ہیں:’’في هذه الأحاديث استحباب سنة الجمعة بعدها والحث عليها وأن أقلها ركعتان وأكملها أربع ‘‘ ترجمہ ان احادیث میں جمعہ کے بعد  سنتوں کا استحباب ہے اور اس پر ترغیب دی گئی ہے اور اس کی اقل رکعت دو اور کامل چار ہیں۔(شرح النووی علی صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 169، طبع دار احیاء التراث )

   جواب : امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ مذہبِ شوافع بیان کیا ہے، احناف کی تصریحات ماقبل میں گزر چکیں، مزید محدثِ احناف علامہ بدر الدین عینی  حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  جمعہ کے بعد کی سنتوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’فإن قيل: لا يكون واجبا لوجود الأمر؟ قلت: نبه عليه السلام على عدم الوجوب بقوله: من كان منكم مصليا " ولكن الأحاديث تدل على أنها سنة مؤكدة ‘‘ ترجمہ : اگر اعتراض کیا جائے  کہ(سنت بعدیہ)  امر  ہونے کے باوجود واجب کیوں نہیں ؟  تو میں کہتا ہوں کہ  اس کے واجب نہ ہونے پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے متنبہ کیا اپنے اس فرمان مبارک کے ساتھ کہ : جو تم میں سے  نماز ادا کرے " لیکن احادیث  دلالت کرتی ہیں کہ یہ  سنت مؤکدہ ہیں  ۔( شرح ابی  داؤد  للعینی ، جلد4، صفحہ474 ، مطبوعہ ریاض )

   اسی طرح ایک  حدیث پاک کے تحت  حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ بعدِ جمعہ چار رکعات سنت مؤکدہ ہیں ۔‘‘( مرآۃ المناجیح ، جلد 2 ، صفحہ 225 ، مطبوعہ  لاھور )

   اگر یہ اعتراض کیا جائے  کہ علامہ شامی  نے ان چار رکعات کو سنت غیر مؤکدہ بیان کیا ہے۔ارشاد فرماتے ہیں : ’’أقول: قال في البحر في باب صفة الصلاة: إن ما ذكر مسلم فيما قبل الظهر، لما صرحوا به من أنه لا تبطل شفعة الشفيع بالانتقال إلى الشفع الثاني منها، ولو أفسدها قضى أربعا، والأربع قبل الجمعة بمنزلتها. وأما الأربع بعد الجمعة فغير مسلم فإنها كغيرها من السنن، فإنهم لم يثبتوا لها تلك الأحكام المذكورة ومثله في الحلية، وهذا مؤيد لما بحثه الشرنبلالي من جوازها بتسليمتين لعذر ‘‘ ترجمہ : میں کہتا ہوں  ، بحر  میں  " باب صفۃا لصلاۃ " میں فرمایا کہ  بیشک جو ذکر کیا گیا  وہ ظہر سے پہلے کی چار سنتوں میں مسلم ہے،   کیونکہ  علمائے کرام نے اس کی صراحت  کی ہے،  شفیع  کا شفعہ   اس میں دوسرے شفعہ  کی طرف منتقل ہونے سے باطل  نہیں ہوتا ہے  ،اور اگر ان کو فاسد کر دیا تو  چار کی قضا کرے گا  اور  جمعہ سے پہلے کی سنتیں بھی   اس ہی کے  مرتبہ میں ہیں ، البتہ  جمعہ کے بعد کی چار سنتوں میں یہ بات تسلیم نہیں،  یہ سنتیں دیگر سنتوں کی طرح ہیں،  کیونکہ اس کے لیے علمائے کرام نے  مذکورہ احکام ثابت نہیں کیے   ، اسی کی مثل حلیہ میں ہے  اور اس سے  تائید ہوتی ہے، اس کی جو  علامہ شرنبلالی نے فرمایا  کہ  عذر کی                بنا ء  پر یہ  چار سنتیں  دو سلاموں سے پڑھنا جائز ہے ۔( رد المحتار  ، جلد 2 ، صفحہ 16 ، مطبوعہ  دار الفکر، بیروت )

   جواب :علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بحر الرائق سے نقل کردہ اس عبارت کا ان سنتوں کے مؤکدہ یا غیر مؤکدہ ہونے  سے تعلق نہیں ہے ۔  اصل مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ جمعہ کے بعد کی چار سنتوں کے لیے وہ تمام احکام ثابت ہیں، جو  دیگر چار رکعتی سنت مؤکدہ کے  لیے ہیں یا نہیں ،جیسے دوسری رکعت میں درود ابراہمی کا نہ پڑھنا تیسری رکعت کی ابتدا ثناء سے نہ کرنا ؟ یہاں علامہ شامی رحمۃ اللہ  تعالی علیہ نے  جمعہ کے بعد  کی چار سنتوں کے  بعض احکام کے حوالے سے ایک قول یا ایک بحث کے نقل کے طور پر استثنا ء ذکر کیا ہے اوروہ  بھی راجح نہیں ،بلکہ خود بحر وغیرہ دیگر کتب کی روشنی میں مرجوح ہے۔ بہرحال اس مرجوح تفصیل کے اعتبار سے استثناء کی صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باقی چار رکعتی سنن مؤکدہ  کو ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، دوسری رکعت پر سلام نہیں پھیر سکتے ، جبکہ جمعہ کی سنتِ بعدیہ میں عذر کی وجہ سے سلام پھیر سکتے ہیں ۔ یہ معنی نہیں کہ جمعہ کے بعد کی چار سنتیں غیر مؤکدہ ہیں، یہ تو خود  امام ابن نجیم  مصری، امام شرنبلالی  اور علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہم وغیرہ کی تصریحات کے صریح خلاف ہے ۔ عبارات ماقبل میں گزر چکی ہیں ۔

    علامہ رافعی رحمہ اللہ تعالی ، علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی  اس عبارت کے تحت  فرماتے ہیں :’’ھم  و ان لم یثبتو ا لھا  تلک الاحکام  الا  انھم  اثبتو ا لھا  انھا  کالاربع  قبلھا  من جھۃ  عدم الصلاۃ  علی النبی  علیہ الصلاۃ والسلام   و الاستفتاح  فعلینا الاتباع“ ترجمہ :  اگرچہ علمائے کرام نے اس کے لیے   یہ احکام ثابت نہیں کیے ،لیکن  انہوں نے اس کو  پہلی والی سنتوں کی طرح     مانا   ہے،  حضور صلی اللہ علیہ وسلمپر درود  اور    ثنا ء   نہ  پڑ ھنے  کے متعلق، لہذا ہم پر ان کی اتباع لازم ہے ۔( تقریرات الرافعی  ، جلد 1 ، صفحہ 89 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،  بیروت )

   بحر الرائق کی مکمل عبارت  سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔ عبارت یہ ہے :’’النوافل سنة كانت أو غيرها، فإنه يأتي بالثناء والتعوذ فيه كالأول؛ لأن كل شفع صلاة على حدة ولذا يصلي على النبي صلى اللہ عليه وسلم  في القعود الأول، واستثنى من ذلك في المجتبى الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها فإنها صلاة واحدة كالفرض لكن هو مسلم في الأربع قبل الظهر لما صرحوا به من أنه لا تبطل شفعة الشفيع بالانتقال إلى الشفع الثاني منها، ولو أفسدها قضى أربعا والأربع قبل الجمعة بمنزلتها، وأما الأربع بعد الجمعة فغير مسلم بل هي كغيرها من السنن فإنهم لم يثبتوا لها تلك الأحكام المذكورة ‘‘ ترجمہ : نوافل  سنت ہوں یا  اس کے علاوہ  اس میں  (تیسری رکعت ) میں  ثناء اور تعوذ پڑھے گا جیسا کہ شروع میں پڑھا تھا  ، کیونکہ  اس کا ہر شفعہ الگ  سے نماز ہے  ، اور اسی وجہ سے  پہلے قعدہ  میں  درود ابراہیمی نہیں پڑھے گا  اور  مجتبٰی میں ہے  ، ظہر سے پہلے ،  جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد کے نوافل مستثنی  کیے   ہیں،  کیونکہ   یہ ایک نماز کی طرح ہیں،  جیسا کہ فرض نماز ہے،   لیکن  ظہر سے پہلےکی  چار  رکعات میں تو یہ   تسلیم ہے ، کیونکہ اس میں صراحت ہے  کہ   شفیع  کا شفعہ  اس میں دوسری دو رکعات کی طرف منتقل ہونے سے باطل نہیں ہوگا  اور اگر نماز فاسد کردی  تو چار کی قضا لازم ہوتی  ہے    اور جمعہ سے پہلے کی چار رکعات  ظہر  سے پہلے کی چار رکعات سنت  کی طرح ہیں   ، بہرحال  جمعہ کے بعد کی چار رکعات میں یہ تسلیم نہیں،   بلکہ یہ دوسری   سنتوں کی طرح   ہیں، اس کے لیے  علمائے کرام نے یہ احکام ثابت نہیں کیے  ہیں۔(بحر الرائق ، جلد 1 ، صفحہ 571،570 ، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ،  بیروت )

   لیکن بحر الرائق میں دوسرے مقام پر ان سنتوں کے لیے بھی دیگر سنتوں کی طرح احکام  کا قول کیا گیا ہے، فرماتے ہیں:’’في المجتبى وفي الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها لا يصلي على النبي  صلى اللہ عليه وسلم  في القعدة الأولى ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة بخلاف سائر ذوات الأربع من النوافل اهـ.وصحح في فتاواه أنه لا يأتي بهما في الكل لأنها صلاة واحدة  ،ولا يخفى ما فيه فالظاهر الأول‘‘  ترجمہ :   مجتبٰی میں ہے ’’ اور چار ظہر  سے پہلے کی   اورچار  جمعہ سے پہلے کی  اور چار جمعہ کے بعد  کی  جو سنتیں ہیں  ان میں قعدہ اولی میں   درود ابراہیمی نہیں پڑھیں گے   اور جب تیسری کے لیے کھڑے ہوں گے تو   ثناء نہیں پڑھیں گے،  برخلاف بقیہ  چار رکعتی  نوافل  کے  اور اپنے فتاوی میں صحیح قرار دیا ہے، اس کو  کہ  تمام میں نہیں  پڑھیں گے  کیونکہ یہ ایک نماز ہے  اور اس میں جو خلل ہے، وہ مخفی نہیں ،لہذا پہلا مؤقف زیادہ ظاہر  ہے ۔( بحر الرائق ، جلد2 ، صفحہ 87 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت  )

   پھر فتاوی شامی  میں ایک مقام پر   شرح منیہ سے   و ہی احکام  جو سنت مؤکدہ  کے ہیں  ، جمعہ کے بعد کی چار  رکعات کے لیے  بھی   بیان کیے   ہیں:’’ أما إذا شرع في الأربع التي قبل الظهر وقبل الجمعة أو بعدها ثم قطع في الشفع الأول أو الثاني يلزمه قضاء الأربع باتفاق لأنها لم تشرع إلا بتسليمة واحدة، فإنها لم تنقل عنه  عليه الصلاة والسلام   إلا كذلك، فهي بمنزلة صلاة واحدة، ولذا لا يصلي في القعدة الأولى ولا يستفتح في الثالثة. ولو أخبر الشفيع بالبيع وهو في الشفع الأول منها فأكمل لا تبطل شفعته وكذا المخيرة لا يبطل خيارها وكذا لو دخلت عليه امرأته وهو فيه فأكمل لا تصح الخلوة ولايلزمه كمال المهر لو طلقها، بخلاف ما لو كان نفلا آخر فإن هذه الأحكام تنعكس. وذكر في البحر أنه اختاره الفضلي وقال في النصاب إنه الأصح. لأنه بالشروع صار بمنزلة الفرض‘‘ ترجمہ :  بہرحال جب  ظہر سے پہلے  اور جمعہ سے پہلے والی یا جمعہ کے بعد والی چار رکعات شروع کیں،  پھر اس کو   پہلے یا دوسرے  شفعہ میں توڑ دیا تو  اس پر بالاتفاق  چار کی قضا لازم ہے   ،کیونکہ  یہ مشروع نہیں ہوئی، مگر ایک سلام کے ساتھ،  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح منقول ہیں  ،تو گویا یہ ایک نماز کے مرتبہ میں ہوئیں  ، اسی وجہ سے  پہلے قعدہ میں   درود نہیں پڑھے گا اور نہ ہی  تیسری  رکعت میں ثناء پڑھے گا  ، اور اگر کسی   نے شفیع  کو شفعہ کے بارے میں خبر دی  اور   وہ پہلی دورکعات میں ہو  اور اسے مکمل کر لے تو  شفعہ کا حق باطل نہیں ہوگا  ، اسی طرح  جس عورت کو خیار ملا ہو اس کا خیار باطل نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح  اگر اس کے پاس عورت آئی  اور وہ شخص  اس نماز میں ہو تو خلوت صحیحہ نہیں ہوگی  اور نہ ہی  طلاق دینے کی صورت میں مکمل مہر لازم ہوگا   برخلاف اس کے کہ   اگر دوسری  نفل نماز ہوتی ،تو یہ احکام اس     کے برعکس   ہوجاتے    اور بحر  الرائق میں ذکر کیا  کہ  اس کو فضلی نے اختیار کیا  ہے اور نصاب میں فرمایا  کہ یہ زیادہ صحیح  ہے،  کیونکہ  شروع کرنے  کے سبب فرض کے  مرتبے میں ہوگئیں ہیں ۔( رد المحتار،  جلد 2 ، صفحہ 31 ، مطبوعہ دار الفکر ،بیروت )

    اور یہی احکام  امداد الفتاح میں علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی علیہ الرحمۃ نے  جمعہ کے بعد والی چار رکعات کو سنت  مؤکدہ میں شامل  کر کے بیان کیے ہیں،  لہذا  صحیح یہی  ہے کہ ان کے لیے یہ احکام ثابت  ہیں  اور یہ سنت مؤکدہ ہیں ۔ ( امداد الفتاح ، صفحہ  431  ، مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم