Khutbay Ke Waqt Chanda Karna Kaisa?‎

خطبے کے وقت چندہ کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:pin:5838

تاریخ اجراء:26محرم الحرام1440ھ07اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جمعہ کے دن اذان ثانی کے دوران صفوں میں گھوم کر مسجد کے لیے چندہ جمع کرنا کیسا؟ اس وقت عوام کے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اذانِ ثانی کے دوران چندہ جمع کرنا منع ہے، کیونکہ اس وقت بہتر یہی ہے کہ توجہ سے اذان سنی جائے، دوسرا کوئی کام نہ کیا جائے۔ حتی کہ علماء نے اس اذان کا جواب دینے اور انگوٹھے چومنے سے بچنے تک کا فرمایا ہے۔ جب یہ کام منع ہیں ، تو چندہ جمع کرنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہو گا۔

     علاوہ ازیں اس وقت چندہ جمع کرنے میں دو ایک قباحتیں بھی پائی جاتی ہیں( جن کا مشاہدہ بھی ہے)۔ پہلی یہ کہ اس وقت کچھ لوگ نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں، چندہ جمع کرنے والے بے احتیاطی میں ان کے آگے سے گزر جاتے ہیں، حالانکہ احادیثِ طیبہ میں نمازی کے آگے سے گزرنے کے متعلق سخت وعیدات وارد ہوئی  ہیں۔جن میں سے ایک یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے، تو زمین میں دھنس جانے کو گزرنے سے بہتر جانتا۔

     دوسری قباحت یہ کہ بعض اوقات چندہ جمع کرنے کے دوران ہی خطبہ شروع ہو جاتا ہے اور جمع کرنے والے حضرات ابھی چندہ کرنے میں ہی مصروف ہوتے ہیں، حالانکہ خطبے کے دوران تو چلنا پھرنا، سلام و کلام اور نیکی کا حکم کرنا بھی حرام ہے، لہذا اس وقت چندہ جمع نہ کیا جائے، بلکہ کسی اور ایسے وقت کا انتخاب کر لیا جائے، جو زیادہ چندہ جمع ہونے کا موجب ہونے کے ساتھ ساتھ موافقِ شرع بھی ہو۔

     اذانِ خطبہ کا جواب دینے اور انگوٹھے چومنے سے بچنا چاہیے۔ چنانچہ تبیین  الحقائق میں ہے : ’’اذا خرج الامام ای صعد علی المنبر فلا صلوۃ  ولا کلام وھذا عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ وقالا : لا باس بالکلام اذا خرج قبل ان یخطب ۔۔۔ والاحوط الانصات‘‘ترجمہ : امام جب منبر پر بیٹھ جائے ، تو اس وقت نہ نماز پڑھی جائے اور نہ ہی کلام کیا جائے۔ یہ حکم امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہے اور صاحبین علیہما الرحمۃ فرماتے ہیں : خطبے سے قبل کلام کرنے میں حرج نہیں ۔۔۔ ( لیکن ) خاموش رہنا بہتر ہے ۔ ‘‘( تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، جلد 1، صفحہ 223، مطبوعہ ملتان )

     فتاوی رضویہ شریف میں ہے : ’’اذان خطبہ کے جواب اور اس کے بعد دعا میں امام و صاحبین رضی اللہ تعالی عنہم کا اختلاف ہے، بچنا اولی اور کریں تو حرج نہیں۔ یوں ہی اذان خطبہ میں نامِ پاک پر انگوٹھے چومنا، اس کا بھی یہی حکم ہے ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 468، رضا فاؤنڈیشن، لاھو ر)

     نمازی کے آگے سے گزرنے کے متعلق بخاری شریف میں حضرت ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لو يعلم المار بين يدی المصلي ماذا عليه لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه ترجمہ : نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا وبال ہے، تو چالیس ( سال ) تک کھڑا رہنے کو گزرنے سے بہتر جانتا ۔ ‘‘( صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، باب اثم المار بین یدی المصلی، جلد 1، صفحہ 73، مطبوعہ کراچی )

     موطا امام مالک میں حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’لو یعلم المار بین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یخسف بہ خیرا لہ من ان یمر بین یدیہ‘‘ترجمہ : نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے، تو زمین میں دھنس جانے کو گزرنے سے بہتر جانتا ۔ ‘‘( موطا امام مالک، کتاب قصر الصلوۃ فی السفر، باب التشدید فی ان یمر احد بین یدی المصلی، صفحہ 126، مطبوعہ لاھور )

     خطبے کے وقت چلنا پھرنا، سلام و کلام اور نیکی کا حکم اور چندہ جمع کرنا حرام ہے۔ چنانچہ در مختار میں ہے : ’’کل ما حرم فی الصلوۃ حرم فیھا ای فی الخطبۃ فیحرم اکل و شرب وکلام ولو تسبیحاً او رد السلام او امر بمعروف بل یجب علیہ ان یستمع و یسکت بلا فرق بین قریب وبعید‘‘ترجمہ : ہر وہ کام جو نماز میں حرام ہے، خطبے میں بھی حرام ہے، لہذا کھانا، پینا، کلام کرنا اگرچہ تسبیح ہو یا سلام کا جواب یا نیکی کا حکم ہو، دورانِ خطبہ حرام ہے، بلکہ اس پر واجب ہے کہ (خطیب ) کا دور و نزدیک کا فرق کیے بغیر سنے اور خاموش رہے ۔ ‘‘( در مختار، کتاب الصلوۃ، باب الجمعۃ، جلد 3، صفحہ 39، مطبوعہ  پشاور )

     فتاوی رضویہ میں ہے : ’’خطبہ کے وقت چندہ مانگنا خواہ کوئی بات کرنا حرام ہے ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 380، رضا فاؤنڈیشن، لاھو ر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم