Kisi Jagah Jane Ke 2 Raste Hain To Kis Raste Se Jane Se Sharai Musafir Hoga?

کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں تو کس راستے سے جانے سے شرعی مسافر ہوگا؟

مجیب:ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری

مصدق:مفتی ابومحمد  علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:124

تاریخ اجراء: 16جمادی الاولی1436ھ/08مارچ2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر دوشہروں کو ملانے والے راستے اس طرح ہوں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے درمیانی مسافت 94 کلو میٹر ہو اوروہاں سے  واپسی کی مسافت84 کلو میٹر ہو، تو اس صورت میں ان دونوں شہروں کے رہنے والے ایک دوسرے شہر میں جائیں گے، تو وہ نمازیں کس انداز میں ادا کریں گے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایک جگہ کی دوسری جگہ سے دوری ومسافت  میں شرعاً اس جگہ جانے کے لئے اختیار کیے گئے راستے  کا اعتبار ہے، لہٰذا کسی جگہ پہنچنے کے لیے متعددراستے ہوں، تو جس راستے کو وہ اختیار کرے گا ،اس کا اعتبار  ہوگا۔

      پوچھی گئی صورت میں اگرچہ واپسی جس راستے سے ہو وہ بانوے کلو میٹر سے کم ہے،لیکن اس جگہ جاتے وقت کا راستہ بانوے کلو میٹر سے زیادہ کا تھا، لہٰذا اتنی مسافت پر جب کوئی شخص جائے گا، تو وہ مسافر کہلائے گا واضح رہے کہ جو فاصلہ لکھا گیا ہے اس میں گھر سے گھر کی پیمائش مراد نہیں ہوتی، بلکہ شہر کے بعد فنائے شہر سے لے کر جہاں جانا چاہتا ہے اس بستی یا شہر کی فناء تک کتنا فاصلہ بنتا ہےکہ  اصل دار و مدار  اس چیز پر ہے ۔

      فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’تعتبر المدۃ من ای طریق اخذ فیہیعنی اسی راستے سے مدت کا اعتبار کیا جائے گا جس کو وہ اختیار کرے گا ۔)فتاویٰ عالمگیری،جلد 1، صفحہ 153 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت(

      درمختار میں ہے:ولو لموضع طریقان احدھما مدۃ السفر والآخر اقل ، قصر  فی الاول لا الثانی

   رد المحتار میں اس کے تحت مذکور ہے:ای ولو کان اختار السلوک فیہ بلا غرض صحیح‘‘یعنی اگر کسی جگہ پہنچنے کے لئے دو راستے ہوں ایک راستہ مدت سفر جتنا ہو اور دوسرا کم ہو، تو پہلے راستے سے جانے میں قصر کرے گا دوسرے راستے سے جانے میں قصر نہیں کرے گا،اگرچہ اس راستے سے جانے میں اس کی کوئی صحیح غرض نہ بھی ہو ۔ )درمختار معہ رد المحتار،جلد 2،صفحہ 726 ،مطبوعہ کوئٹہ(

      صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں ۔ ایک سے مسافت سفرہے دوسرے سے نہیں، تو جس راستہ سے یہ جائے گا اس کا اعتبار ہے، نزدیک والے راستے سے گیا تو مسافر نہیں اور دور والے سے گیا،تو ہے، اگرچہ اس راستہ کے اختیار کرنے میں اس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں، ایک دریا کا دوسرا خشکی کا ان میں ایک دو دن کا ہے دوسرا تین دن کا، تین دن والے سے جائے،تو مسافر ہے ورنہ نہیں۔(بہار شریعت ،جلد 1، صفحہ 741۔742، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم