Kisi Kaam Ke Jaldi Hone Ke Liye Dua Karna Kya Dua Mein Jaldi Machana Hai?

کسی کام کے جلد ہوجانے کے لئے دعا کرنا کیا دعا میں جلدی مچانا ہے ؟

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-951

تاریخ اجراء:18ذیقعدۃالحرام1444 ھ/08جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں نے سنا تھا کہ دعا میں جلدی نہیں مچانی چاہئے، اب اگر کسی  کام کے جلدی  ہوجانے کی حاجت ہو اور یوں دعا کی جائے کہ فلاں وقت تک یہ کام ہوجائے، تو کیا یہ جلدی مچانے میں آئے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کسی کام کا وقت ہی مقید ہو کہ اس ٹائم پیریڈ تک لاسٹ ڈیٹ ہے، تو ضرورتاً اس وقت تک کام ہوجانے کی دعا کی جا سکتی ہے،یہ دعا کی قبولیت میں جلدی مچانا نہیں ہے۔ہاں  یہ کہنا  جلدی مچانا  ہے کہ میں نے دعا مانگی،اب تک قبول نہ ہوئی،ایسا  کہنے کی اجازت  نہیں۔بندے کا کام  ہے کہ دعا کرتا رہے اور نتیجہ اللہ پاک پرچھوڑ دے۔ اگر دعا کی قبولیت  کے اسباب کا خیال رکھے گا ،تو امید ہے کہ اللہ پاک دعا ضرور قبول فرمائے گا۔ ہاں اگر خود ہی کوئی ایسا کام کرتا ہو جو قبولیتِ دعا میں رکاوٹ ہو جیسے قبولیت کی کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا ،مثلاً: معاذ اللہ حرام کھانا، یا دعا میں توجہ نہ ہونا،بے توجہی اور غافل دل کے ساتھ دعا مانگنا یا قبولیت کا یقین نہ رکھنا، تو  یہ اس بندے کی اپنی غلطی ہے۔

   یہ بھی یاد رہے کہ قبولیتِ دعا کی مختلف صورتیں ہیں: جو مانگا وہی مل جانا یا دعا کے بدلے کوئی مصیبت دور ہو جانا یا گناہوں کا کفارہ ہوجانا یا آخرت میں اس دعا  کے بدلے ثواب دیا جانا،لہٰذا ممکن ہے کہ ہمیں قبولیتِ دعا  کا علم نہ ہو ،مگر دعا قبول ہو چکی ہو۔

 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندے نے جو مانگا وہ اس کے حق میں برا ہوتا ہے لہٰذا اللہ پاک عطا نہیں فرماتا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ ہمارے نقصان کی چیز سے ہمیں بچا لیا،لہٰذا کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

   اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشادفرماتاہے:”وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْترجمۂ                                 کنزالایمان:’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘ (سورہ مومن، آیت60)

   تفسیرخزائن العرفان میں اس آیت کےتحت ہے:”حدیث شریف میں ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے یا تو اس کی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دے دی جاتی ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے۔“(تفسیرخزائن العرفان، تحت الآیۃ)

    حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ  علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لا يزال يستجاب للعبد ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم ما لم يستعجل قيل يا رسول الله ما الاستعجال ؟ قال يقول قد دعوت وقد دعوت فلم أر يستجيب لي فيستحسر عند ذلك ويدع الدعاء “یعنی بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا قَطعِ رحمی کی دعا نہ مانگے اور جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کی گئی :یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم، جلد بازی کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا:یہ کہے کہ میں نے دعا مانگی اور مانگی مگر مجھے امید نہیں کہ قبول ہو، لہٰذا اس پر دل تنگ ہوجائے اور دعا مانگنا چھوڑ دے۔(صحیح مسلم،صفحہ 870 ،الحدیث:2735، مطبوعہ :ریاض)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم