Kon Kon Se Kamon Ka Istikhara Karwaya Ja Sakta Hai ?

کون کون سے کاموں کا استخارہ کروایا جاسکتا ہے؟

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1869

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1445ھ/03اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   استخارہ کن کاموں کے متعلق کروایا جاسکتاہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   استخارہ ہر اس کام  کےمتعلق کیا جاسکتا ہےجس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار مسلمان کی رائے پر چھوڑ دیا گیا ہےیعنی وہ کام شرعی اعتبار سے فرض و واجب  یا مستحب نہ  ہومثلا نماز پڑھنا یا والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا کہ ان کےمتعلق استخارہ نہیں ہو سکتابلکہ یہ کام کرنا ویسے ہی ضروری ہیں۔اسی طرح جو کام شرعی اعتبار سے منع ہے اس کے متعلق استخارہ نہیں ہوسکتا ۔مثلا ناجائز کاروبار،قطع رحمی کہ ان کے متعلق حکم واضح ہے کہ یہ کام نہیں کرنے۔نیزاستخارہ اسی کام کے متعلق کیا جائے جس کے بارے میں رائے قائم نہ ہورہی ہو۔جس کام کےکر نے یا نہ کرنے میں کسی ایک طرف رغبت ہوچکی ہو ،اس کے متعلق استخارہ نہ کیاجائے بلکہ اپنی رغبت و میلان کے مطابق وہ کام کرلیا جائے ۔

   بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے: عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها، كما يعلمنا السورة من القرآنترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت  ہے فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم کو تمام امور میں استخارہ کی تعلیم فرماتے، جیسے قرآن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب التھجد،جلد 02صفحہ57،دارطوق النجاۃ)

   اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمدیار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا :”بشرطیکہ وہ کام نہ حرام ہو نہ فرض و واجب اور نہ روزمرہ کا عادی کام۔لہذا نماز پڑھنے،حج کرنے یا کھانا کھانے،پانی پینے  پر استخارہ نہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ اس کام کا پورا ارادہ نہ کیا ہو صرف خیال ہو جیسے کوئی کاروبار،شادی بیاہ،مکان کی تعمیر وغیرہ کا معمولی ارادہ ہو اور تردد ہو کہ نہ معلوم اس میں بھلائی ہوگی یا نہیں تو استخارہ کرے۔“(مرأۃ المناجیح،جلد02،صفحہ301، نعیمی کتب خانہ گجرات)

   مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے ”بد شگونی“میں لکھا ہے کہ:”صِرْف ان کاموں  کے بارے میں  استخارہ ہوسکتا ہے جو ہر مسلمان کی رائے پر چھوڑے گئے ہیں  مثلاً تجارت یا ملازمت میں  سے کس کا انتخاب کیا جائے ؟ سفر کے لئے کون سا دن یا کون سا ذریعہ مناسب رہے گا ؟ مکان ودکان کی خریداری مفید ہوگی یا نہیں  ؟ کون سے علاقے میں  رہائش مناسب ہوگی ؟ شادی کہاں  کی جائے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔  جن کاموں  کے بارے میں  شریعت نے واضح اَحکام بیان کردئیے ہیں  ان میں  استخارہ نہیں  ہوتا جیسے پنج وقتہ فرض نمازیں ،مالدار ہونے کی صورت میں  زکوۃ کی ادائیگی رمضان المبارک کے روزے وغیرہ کے بارے میں  استخارہ نہیں  کیا جائے گا کہ میں  نماز پڑھوں  یا نہ پڑھوں  ؟ زکوۃ ادا کروں  یا نہ کروں  ؟ اسی طرح جھوٹ بولنا یا کسی کی حق تلفی کرنا وغیرہ جن کاموں  سے شریعت نے منع کیا ہے وہ کروں  یا نہ کروں  ؟ بلکہ ان تمام کاموں  میں  شریعت کی ہدایات پر عمل کرنا ضَروری ہے ۔۔۔۔اِستخارہ کے آداب میں  سے یہ بھی ہے کہ اِستخارہ ایسے کام کے متعلق کیا جائے جس کے کرنے کے بارے میں  طبیعت کا کسی طرف مَیلان نہ ہو کیونکہ اگر کسی ایک طرف رَغبت پیدا ہوچکی ہوگی تو پھر اِستخارہ کی مدد سے صحیح صورتحال کا واضح ہونا بہت مشکل ہوجائیگا ۔     "(بدشگونی ،صفحہ46 ،45، مکتبۃ المدینہ کرا چی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم