Kya Chaar Rakat Nafil Namaz Mein Pehla Qaida Farz Hai Bhool Gaye To Kya Hukum Hai ?

کیا چار رکعت نفل نماز میں پہلا قعدہ فرض ہے ؟ اگر بھول گئے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: Har-74

تاریخ اجراء: 18ذو الحجۃ  الحرام 4214ھ29 جولائی 21 20ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ چار رکعات نفل میں قعدہ اولی فرض ہے یا نہیں؟اگر کوئی بھول کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا، تو اس کے لیے واپس آنا ضروری ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دو رکعت نفل کے متعلق تو اتفاق ہے کہ اس میں دوسری رکعت پر قعدہ فرض ہے،اگرقعدہ کیے بغیر بھول کر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے، تو سجدہ سے پہلے پہلے واپس لوٹنا لازم ہے،ورنہ نفل باطل ہوجائیں گے۔

   بدائع الصنائع میں ہے:’’ولو كان نوى أن يتطوع بركعتين فقام من الثانية إلى الثالثة قبل أن يقعد فيعود ههنا بلا خلاف بين مشايخنا لأن كل شفع بمنزلة صلاة الفجر‘‘اور اگر وہ دو رکعت کی نیت کر چکا تھا،پھرقعدہ کرنے سے پہلے دوسری سے تیسری رکعت کی طرف کھڑا ہوگیا، تو یہاں وہ ہمارے مشائخ کے درمیان بغیر کسی اختلاف کے لوٹے گا، کیونکہ ہر شفع فجر کی نماز کے درجہ میں ہے۔ ( بدائع الصنائع ،ج2،ص300،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   عالمگیری میں چار رکعات نفل کے متعلق اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ھذا اذا نوی اربعاً فان لم ینو اربعاً و قام الی الثالثۃ یعود اجماعاً ‘‘یعنی یہ جب ہے کہ جب چار رکعت کی نیت کی ہو، پس اگر چار رکعت کی نیت نہیں کی اور تیسری کے لیے کھڑا ہوگیا، تو بالاجماع لوٹے گا ۔ (عالمگیری،ج1،ص113،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:’’اور اگر دو رکعت(نفل) کی نیت باندھی تھی اور بغیر قعدہ کیے تیسری کے لیے کھڑا ہوگیا، تو عود کرے ،ورنہ فاسد ہوجائے گی۔ ( بھار شریعت،ج1،ص667،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   چار رکعات نفل میں قعدہ اولی فرض ہے یانہیں؟اس کے بارے میں اختلاف ہے۔امام محمد علیہ الرحمۃ کے نزدیک فرض ہے،لہذا چار رکعات نفل میں قعدہ اولی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا، تو جب تک اگلی رکعت کاسجدہ نہ کر لے واپس لوٹ آئے،ورنہ نوافل فاسد ہوجائیں گے۔جبکہ شیخین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کے نزدیک چار رکعت والی صورت میں قعدہ اولی کی فرضیت ساقط ہوجائے گی اور یہ واجب میں تبدیل ہوجائے گا،کیونکہ اس کی فرضیت کا حکم ذاتی نہیں،بلکہ غیر کی وجہ سے تھا کہ اس میں سلام پھیرا جانا تھا اور نماز سےباہر ہونا تھا،جب دو رکعات پر سلام نہیں پھیرنا،بلکہ مزید دو رکعات پڑھنی ہیں، توفرضیت والی وجہ ختم ہوگئی اوریہ واجب میں تبدیل ہوگیا،لہذا اگر قعدہ کیے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا، تو اب واپس نہیں لوٹ سکتا،آخر میں سجدہ سہو کر لے ،نماز کامل یعنی چار رکعات ادا ہوگی۔

   امام محمد علیہ الرحمۃ کا قول بھی اگرچہ قوی ہے کہ معراج،سراج، وغیرہ کئی کتب فقہ میں اسی کو جزم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو  اعتماد و اختیار کی دلیل ہے اورقیاس بھی اس کی موافقت میں ہے،مگر اصول ترجیح کے اعتبار سے شیخین کا قول راجح تر ہے،لہذا اسی پر فتوی دیا جائے گا،اسی کے مطابق حکم بیان ہوگا۔

   شیخین کا قول راجح ترہے۔اولاً اس لیے کہ قول امام ہے۔ثانیا اس لیے کہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ بھی ان کے ساتھ ہیں اور یہ خود مستقل ترجیح کی ایک وجہ ہے۔ثالثا اس لیے کہ یہ استحسان ہے۔رابعا اس لیے کہ اس قول کی ترجیح کے لیے ’’صحیح‘‘،’’اصح‘‘،’’اوجہ‘‘صراحتا کئی الفاظ ترجیح موجود ہیں،جبکہ دوسری طرف صرف ترجیحِ ضمنی موجود ہے اور ترجیح صریح،ضمنی ترجیح پر فائق ہوتی ہے۔خامساً اس لیے کہ یہ ظاہر الراویہ ہے۔سادساً اس لیے کہ بشمول سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمدرضا خان علیہ الرحمۃاور  کثیر مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ،اسی کی ترجیح بیان کی۔

   غنیۃ المستملی میں ہے:’’(وان شرع فی الاربع) من التطوع سنۃ کان او غیرھا (ولم یقعد فی آخر الرکعۃ الثانیۃ ) ای ترک القعدۃ الاولی( فسدت) صلوتہ تلک( عند محمد و زفر)لترک فرض وھی القعدۃ الاولی فانھا فرض عندھما فی النفل بناء علی ان کل رکعتین منہ صلوۃ علی حدۃ کما تقدم(وقالا)ای:ابو حنیفۃ و ابو یوسف (لا تفسد) صلوتہ فی الصورۃ المذکورۃ لان القعدۃ علی راس الرکعتین من النفل لم تفرض لعینھابل لغیرھا وھو الخروج علی تقدیر القطع علی راس الرکعتین فلما لم یقطع وجعلھما اربعا لم یات اوان الخروج فلم تفرض القعدۃ ۔ملخصاً‘‘ اگر نفل کی چار رکعت کو شروع کیا، چاہے وہ سنت ہو یا اس کے علاوہ دوسری نماز ہو اور دوسری رکعت کے آخر میں قعدہ نہیں کیا، یعنی قعدہ اولی ترک کردیا ،تو اس کی یہ نماز امام محمد اور امام زفر علیہما الرحمۃ کے نزدیک فاسد ہوجائے گی فرض کے ترک کرنے کی وجہ سے اور وہ قعدہ اولی ہے، پس قعدہ اولی امام محمد اور امام زفر علیہما الرحمۃ کے نزدیک نفل میں فرض ہے ،اس بناء پر کہ نفل کی ہر دو رکعتیں علیحدہ نماز ہے، جیساکہ گزر چکا اور امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کے نزدیک مذکورہ صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی ،کیونکہ نفل کی دوسری رکعت پر قعدہ کرنا فرض لعینہ نہیں ہے، بلکہ فرض لغیرہ ہے اوروہ دو رکعتوں پر نماز کوختم کرنے کی صورت میں نکلنا ہے ،تو جب اس کو ختم نہیں کیا اور ان دو کو چار رکعتیں بنادیا ،تو خروج کا وقت نہ آیا ،لہذا قعدہ فرض بھی نہیں ہوگا۔ (غنیۃ المستملی ،ص 342،مطبوعہ کوئٹہ)

   عالمگیری میں ہے:’’رجل صلی اربع رکعات تطوعاً و لم یقعد علی راس الرکعتین عامداً لا تفسد صلاتہ استحساناً وھو قولھما و فی القیاس تفسد وھو قول محمد رحمہ اللہ ۔و ذکر الامام الصفار فی نسختہ من الاصل انہ ان لم یقعد حتی قام الی الثالثۃ علی قیاس قول محمد رحمہ اللہ تعالی یعود و یقعد و عندھما لا یعود و یلزمہ سجود السھو کذا فی الخلاصۃ۔ ملخصا‘‘ کسی شخص نے چار رکعت نفل نماز پڑھی اور دوسری رکعت پر قصداً نہیں بیٹھا، تو استحساناً اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی شیخین کا قول ہے اور قیاس یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی اور یہی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔امام صفار نے کتاب الاصل کے اپنے نسخہ میں ذکر کیا ہےکہ اگر کسی نے قعدہ اولی نہیں کیا اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا، تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قیاس کے مطابق وہ لوٹے گا اور قعدہ کرے گا اور شیخین کے نزدیک نہیں لوٹے گا اور اس کو سجدہ سہو لازم ہوگا، اسی طرح خلاصہ میں ہے ۔ (عالمگیری،ج1،ص113،مطبوعہ کوئٹہ)

   درمختار میں امام محمد علیہ الرحمۃ کے مذہب کولیتے ہوئے حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اما النفل فیعود ما لم یقید بالسجدۃ‘‘ بہرحال نفل نماز توقعدہ اولی کے لیے لوٹے گا، جب تک تیسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو۔ (درمختار مع رد المحتار،ج2،ص661،مطبوعہ کوئٹہ)

   امام محمد علیہ الرحمۃ کے مذہب پر کئی کتب فقہ میں جزم کیا گیا۔چنانچہ رد المحتار میں امام محمد علیہ الرحمۃ کے مذہب کے متعلق فرماتے ہیں:’’ جزم به في المعراج والسراج وعلله ابن وهبان بأن كل شفع منه صلاة على حدة ولا سيما على قول محمد بأن القعدة الأولى منه فرض فكانت كالأخيرة، وفيها يقعد وإن قام‘‘معراج اور سراج میں اس پر جزم کیا ہے اورابن وھبان نے اس کی تعلیل بیان کی ہےکہ نفل کا ہر شفع علیحدہ نماز ہے اور خاص طور پر امام محمد کے قول کے مطابق کہ نفل کا پہلا قعدہ فرض ہے، تو پہلا قعدہ ،قعدہ اخیرہ کی طرح فرض ہے اور اس میں بھی بیٹھے گا ،اگر چہ کھڑا ہوگیا ہو ۔ (رد المحتار،ج2،ص661،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذہبِ شیخین صحیح ہے۔چنانچہ رد المحتار میں ہے:’’في التتارخانية عن العتابية قيل في التطوع يعود ما لم يقيد بالسجدة والصحيح أنه لا يعود اهـ وأقره في الإمداد لكن خالفه في متنه، تأمل‘‘تتارخانیہ میں عتابیہ کے حوالےسے ہے: کہا گیا کہ نفل نماز میں پہلے قعدے میں لوٹے گا، جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو اور صحیح یہ ہے کہ وہ نہیں لوٹے گا اھ اور اس کو امداد میں ثابت رکھا ہے، لیکن اپنے متن میں اس کی مخالفت کی ہے، توغور کر۔ (رد المحتار، ج2،ص661،مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:’’قال ح:ولا ینافیہ عدم افتراض القعدۃ الاولی فیہ الذی ھو الصحیح لان الکل صلاۃ واحدۃ بالنسبۃ الی القعدۃ کما فی البحر عند قول الکنز:فرضھا التحریمۃ‘‘یعنی علامہ حلبی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:اورصحیح قول کے مطابق نفل نماز میں قعدہ اولی کا فرض نہ ہونا، اس کے منافی نہیں ہے، کیونکہ سب رکعتیں ایک نمازہے، قعدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ،جیساکہ کنزکے قول ’’فرضھا التحریمہ ‘‘کے تحت بحر میں مذکور ہے۔ (رد المحتار،ج2،ص187،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذہبِ شیخین اصح ہے۔چنانچہ تنویرالابصار و درمختار میں واجبات نماز کے بیان میں ہے:’’(القعود الاول)ولو فی نفل فی الاصح‘‘اور قعدہ اولی (واجب ہے) اگر چہ نفل نماز کا ہو اصح قول کے مطابق۔ (تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار،ج2،ص195،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذہبِ شیخین استحسان ہے۔چنانچہ تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’(ولا قضاء لو)صلی اربعاًو(لم یقعد بینھما) استحساناً لانہ بقیامہ جعلھا صلاۃ واحدۃ فتبقی واجبۃ والخاتمۃ ھی الفریضۃ، ملخصا‘‘ استحسانا قضاء لازم نہیں ،اگر چار رکعت پڑھی اور ان کے درمیان قعدہ نہ کیا، کیونکہ اس نے قیام کی وجہ سے اس کو ایک نماز بنادیا ہے، تو قعدہ اولی واجب کے طور پر باقی رہا اور خاتمہ یعنی آخری قعدہ ہی فرض ہوا۔ (تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار،ج2،ص583،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(استحساناً)والقیاس فساد الشفع الاول کما ھو قول محمد بناء علی ان کل شفع صلاۃ فتکون القعدۃ فیہ فرضاً ‘‘ شارح کا قول :(استحسانا) اور قیاس پہلے شفع کا فاسد ہوجانا ہے، جیساکہ وہ امام محمد علیہ الرحمۃ کا قول ہے اس بناء پر کہ نفل نماز کا ہر شفع علیحدہ نماز ہے، تو اس میں قعدہ بھی فرض ہوگا۔(رد المحتار، ج2،ص583،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذہبِ شیخین اوجہ ہے۔چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:’’ اذا نوی ان یتطوع اربع رکعات وقام قال بعض مشایخنا : لا یعود استحسانا لانہ لما نوی الا ربع التحق بالظھر وبعضھم قال:یعود لان کل شفع صلوۃ علی حدۃ والاول اوجہ،ملخصا‘‘ترجمہ:جب کوئی شخص چار رکعات نفل کی نیت کرے اور (پہلا قعدہ کرنے کے بجائے)کھڑا ہوجائے، تو بعض مشائخ نے فرمایا کہ استحساناً نہ لوٹے، کیونکہ جب اس نے چار کی نیت کر لی ،تو نفل ظہر (یعنی فرض )سے مل گئےاور بعض نے فرمایا:لوٹے کیونکہ ہر شفع علیحدہ نماز ہے اور پہلا قول اوجہ ہے۔( بدائع الصنائع ،ج2،ص300،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   اسی طرح حاشیۃ الرافعی میں ہے:’’قال فی النھر:فی شرح التمرتاشی:لو نھض فی التطوع بالاربع الی الثالثۃ فاستتم قائماً قیل:لایعود و قیل یعود، و ذکر الشھید عن محمد انہ یعود والاوجہ انہ لا یعود‘‘ترجمہ:نہر الفائق میں فرمایا:شرح تمرتاشی میں ہے کہ :اگر چار رکعت والی نفل نماز میں تیسری کے لیے کھڑا ہونے لگا،پس سیدھا کھڑا ہوگیا،تو بعض نے کہا کہ وہ قعدہ کے لیے نہ لوٹے اور بعض نے کہا کہ لوٹ آئے ،اور امام شہید نے امام محمد علیہ الرحمۃ سے ذکر کیا ہے کہ وہ لوٹ آئے اور اوجہ یہ ہے کہ وہ نہ لوٹے۔ (حاشیۃ الرافعی علی رد المحتار،ج2، ص661،مطبوعہ کوئٹہ)

   شیخین کا مذہب ظاہر الروایہ ہے۔چنانچہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:’’(و یجب القعود الاول)ولا فرق فی ذلک بین الفرائض والواجبات والنوافل استحساناً عندھما وھو ظاھر الروایۃ والاصح‘‘ترجمہ :اور پہلا قعدہ واجب ہے اوراستحساناً شیخین کے نزدیک فرائض و واجبات و نوافل کے قعدہ اولی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور یہی ظاہر الروایہ اور اصح قول ہے ۔(طحطاوی علی المراقی،ص250،مطبوعہ کوئٹہ)

   جد الممتار میں سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نےکئی مقامات پر اس مسئلہ کے متعلق کلام فرمایا اور مذہب شیخین کوہی راجح و مفتی بہ قراردیا۔ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’فالصحیح فی التراویح النیابۃ عن شفع واحد مطلقاً ولو صلی اربعاً و لم یقعد الا فی الآخر والصحیح فی غیرھا صحۃ الکل ان صلی اربعاً ،وفساد الکل ان زاد،فاغتنم ھذا التحریر ،واللہ ولی التوفیق‘‘ترجمہ : پس تراویح میں صحیح یہ ہے کہ مطلقا ایک شفع سے نیابت درست ہےاور اگر چار رکعت پڑھی اور قعدہ نہیں کیا، مگر آخری رکعت میں ،تو تراویح کے علاوہ میں صحیح قول یہ ہے کہ پوری نماز درست ہوگی اگر چار رکعت پڑھیں اور پوری نماز فاسد ہوجائے گی اگر چار سے زیادہ رکعتیں پڑھی ہوں،پس اس تحریر کو غنیمت سمجھو۔اور اللہ تعالی توفیق کا ولی ہے۔ (جدالممتار،ج3،ص468، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   ایک دوسرے مقام پر فرمایا:’’ان النیابۃ عن شفع واحد مختص بالتراویح و اما بقیۃ السنن والنوافل فان صلی اربعاً کسنن الظھر او صلاۃ الضحی ولم یقعد علی راس الثانیۃ صحت الکل علی المذھب الصحیح استحسانا،وفی الھندیہ عن المحیط: (صلی الاربع قبل الظھر و لم یقعد علی راس الرکعتین جاز استحساناً) اھ‘‘ترجمہ:بے شک ایک شفع کی نیابت تروایح کے ساتھ خاص ہےاور بہرحال بقیہ سنن اور نوافل تو اگر چار رکعت پڑھیں، جیساکہ ظہر کی سنتیں یا چاشت کی نماز اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا تو مذہب صحیح پر استحسانا چاروں رکعتیں صحیح ہیں ،اور ہندیہ میں محیط کے حوالے سے ہے کہ (ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا ،تو استحسانا جائز ہے ۔اھ (جدالممتار،ج3،ص470،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   قولِ امام ہونا یا استحسان ہونا بھی وجوہ ترجیح میں سے ہے۔چنانچہ جد الممتار میں ایک مسئلہ کی وجوہ ترجیح بیان کرتے ہوئے سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’اقول:و یجب الافتاء بقول الامام ،اما اولاً فلانہ قول الامام، و اما ثانیاً فلانہ استحسان‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں :اور امام صاحب کے قول پر فتوی دینا واجب ہے ،بہرحال پہلی وجہ کیونکہ وہ امام صاحب کا قول ہے ،اور بہرحال دوسری وجہ کیونکہ وہ استحسان ہے ۔ (جد الممتار،ج3،ص472،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   امام اعظم علیہ الرحمۃکے ساتھ صاحبین میں سے کسی ایک کا ہونا بھی وجوہ ترجیح میں سے ہے۔چنانچہ شرح عقود رسم المفتی میں ہے :’’اذا اتفق ابو حنیفۃ وصاحباہ علی جواب لم یجز العدول عنہ الا لضرورۃ وکذا اذا وافقہ احدھما ‘‘ترجمہ:جب امام اعظم اور آپ کے دونوں شاگردکسی جواب پر متفق ہوجائیں، تو اس سے عدول کرنا،جائز نہیں ہے، مگر ضرورت کی وجہ سے اور اسی طرح جب ان میں سے کوئی ایک آپ کے موافق ہو (اس سے بھی عدول جائز نہیں)۔  ( شرح عقود رسم المفتی ،ص 26،مطبوعہ کوئٹہ)

   اکثر مشائخ کا کسی قول کو اختیار کرنا بھی وجوہ ترجیح میں سے ہے۔چنانچہ شرح عقود رسم المفتی میں ہے :’’ فی شرح البیری علی الاشباہ ان المقرر عن المشایخ انہ متی اختلف فی المسئلۃ فالعبرۃ بما قالہ الاکثر انتھی وقدمنا نحوہ عن الحاوی القدسی‘‘ترجمہ: شرح بیری علی الاشباہ میں ہے کہ مشائخ سے ثابت شدہ ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو، تو اعتبار اس کا ہے جس کو اکثر نے کہا ہو ۔عبارت ختم ہوئی اور ہم نے اس کی مثل حاوی قدسی سے پہلے ذکرکردیا ہے۔ (شرح عقود رسم المفتی ،ص 40،مطبوعہ کوئٹہ)

 شرح عقود رسم المفتی میں ہے :’’ والتصحیح الصریح مقدم علی التصحیح الالتزامی ‘‘ترجمہ: اور تصحیح صریح تصحیح التزامی پر مقدم ہوتی ہے ۔ (شرح عقود رسم المفتی ،ص 36، مطبوعہ کوئٹہ)

   فائدہ:آخر میں بطور تتمہ کچھ مزید مسائل بیان کر دینا بھی مناسب ہے۔

   (1) چار رکعت نفل کے متعلق جو تفصیل بیان ہوئی،سنتِ غیر مؤ کدہ میں بھی یہی تفصیل ہوگی، کیونکہ سنتِ غیر مؤ کدہ تمام احکام میں مثل نفل ہے،اورصحیح قول کے مطابق سنتِ موکدہ کا بھی یہی حکم ہے یعنی قعدہ اولی بھول کر کھڑے ہوگئے ،تو واپس لوٹنے کی اجازت نہیں ہوگی ،بلکہ آخر میں سجدہ سہو کر لینے سے نماز مکمل ہو جائے گی،الغرض مذہب صحیح کے مطابق چار رکعت فرض،واجب،سنت،نفل سب کا حکم یہی ہے کہ ان کا قعدہ اولی فرض نہیں ہے،بلکہ واجب ہے۔

   (2)مذکور بالا تفصیل سے دو اور چار رکعات کا حکم معلوم ہوگیا۔اگر چار سے زائد رکعات پڑھیں اور درمیان میں قعدہ نہ کیا، تواصح قول کے مطابق عام نفل و سنت کا حکم یہ ہے کہ بالکل باطل ہوجائیں گے کہ چار رکعات میں قیاس یہ تھا کہ باطل ہوجائیں ،لیکن وہاں استحسان بھی ہے،وہ یہ کہ اس کی مثل فرضو ں میں چار رکعات موجود ہیں اور اس میں قعدہ اولی سہواً یا قصداً چھوڑنے سے فساد نہیں ہوتا ،لہذا وہاں استحسان کو لے لیا گیا اور صحت کاحکم بیان ہوا ،جبکہ ایک قعدہ کے ساتھ چار سے زائد رکعات میں کوئی استحسان موجود نہیں، کیونکہ چار سے زائد فرض نہیں ہوتے کہ اس پر قیاس کیا جا سکے،لہذا یہاں قیاس کے مطابق ہی حکم ہوگا اور وہ یہ کہ ایک قعدہ کے ساتھ چار سے زائد رکعات چاہے سہواً پڑھی جائیں یا قصداً بہرصورت تمام رکعات باطل ہوجائیں گی۔البتہ یہ یاد رہے اس حکم سے تراویح مستثنیٰ ہے ،یعنی تراویح باطل نہیں ہوں گی ،بلکہ بغیر قعدہ جتنی رکعات پڑھیں،وہ صرف دو رکعات شمار ہوں گی،مثلاً کسی نے عام سنت یا نفل آٹھ رکعات پڑھیں اور صرف آخر میں قعدہ کیا، تو یہ آٹھوں رکعات باطل ہوں گی، اور اگر یہ معاملہ تروایح میں ہو، تویہ آٹھ رکعات صرف دو رکعات شمار کی جائیں گی۔

   عالمگیری میں سنت ِمؤ کدہ کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’والاربع قبل الظھر حکمھا حکم التطوع عند محمد رحمہ اللہ تعالی و اما عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی ففیہ قیاس و استحسان ،فی الاستحسان لا تفسد وھو الماخوذ کذا فی المضمرات‘‘ترجمہ:اور ظہر سے پہلے چاررکعت نماز کا حکم نفل نماز کا ساہے، امام محمد علیہ الرحمۃ کے نزدیک اوربہرحال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو اس میں قیاس اور استحسان ہے، استحسان میں نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی ماخوذ ہے، جیساکہ مضمرات میں ہے ۔ (عالمگیری، ج1،ص113، مطبوعہ کوئٹہ)

   قعدہ اولی فرض ،واجب ،سنت ،نفل سب میں واجب ہے۔چنانچہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:’’(و یجب القعود الاول)ولا فرق فی ذلک بین الفرائض والواجبات والنوافل استحساناً عندھما وھو ظاھر الروایۃ والاصح‘‘ترجمہ:اور پہلا قعدہ واجب ہے اوراستحسانا شیخین کے نزدیک فرائض و واجبات و نوافل کے قعدہ اولی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور یہی ظاہر الروایہ اور اصح قول ہے ۔ (طحطاوی علی المراقی،ص250،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں چاررکعات سے زائد نفل ایک قعدہ کے ساتھ ادا کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’كون النفل كل شفع منه صلاة ليس على إطلاقه. بل من بعض الأوجه كما مر بيانه، وإلا لزم أن لا تصح رباعية بترك القعدة الأولى منها مع أن الاستحسان أنها تصح اعتبارا لها بالفرض خلافا لمحمد، نعم لو تطوع بست ركعات أو ثمان بقعدة واحدة فالأصح أنه لايجوز كما في الخلاصة لأنه ليس في الفرائض ست يجوز أداؤها بقعدة، فيعود الأمر فيه إلى القياس كما في البدائع ‘‘ترجمہ:نفل کا ہر شفع علیحدہ نماز ہے، یہ بات مطلق نہیں ہے ،بلکہ بعض صورتوں کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ اس کا بیان گزرچکا،وگرنہ لازم آئے گا کہ چار رکعات(نفل یا سنت) اس کاقعدہ اولی چھوڑنے سے صحیح نہ ہو،حالانکہ استحسان یہ ہے کہ فرض پر قیاس کرتے ہوئے ،وہ درست ہے برخلاف امام محمد علیہ الرحمۃ کے،ہاں اگر چھ رکعت یا آٹھ رکعت نفل ایک قعدہ کے ساتھ پڑھیں تو اصح یہ ہے کہ نفل درست نہ ہوں گے ، جیساکہ خلاصہ میں ہے ،کیونکہ فرائض میں چھ رکعتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کو ایک قعدہ کے ساتھ ادا کرنا ،جائز ہو،تواس میں معاملہ قیاس کی طرف لوٹے گا، جیسا کہ بدائع میں ہے۔ (رد المحتار، ج2،ص574،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ایک دوسرے مقام پر چار رکعات سے زائد نفل کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ولو تطوع بست رکعات بقعدۃ واحدۃ قیل یجوز والاصح لا،فان الاستحسان جواز الاربع بقعدۃ اعتباراً بالفرض،ولیس فی الفرض ست رکعات تودی بقعدۃ فیعود الامر الی اصل القیاس کما فی البدائع‘‘ترجمہ:اور اگر ایک ہی قعدہ کے ساتھ چھ رکعات نفل پڑھیں، تو کہا گیا کہ جائز ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ نہیں،کیونکہ ایک قعدہ کے ساتھ چار کا جائز ہونا فرض پر قیاس کرنے کی وجہ سے ہے،اور فرض میں ایسی کوئی چھ رکعات نہیں ہیں،جو ایک قعدہ کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں، لہذا معاملہ اصل قیاس کی طرف لوٹ جائے گا، جیسا کہ بدائع میں ہے۔ (رد المحتار،ج2،ص579،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتےہیں:’’ ان النیابۃ عن شفع واحد مختص بالتراویح و اما بقیۃ السنن والنوافل فان صلی اربعاً کسنن الظھر او صلاۃ الضحی ولم یقعد علی راس الثانیۃ صحت الکل علی المذھب الصحیح استحسانا،وفی الھندیہ عن المحیط: (صلی الاربع قبل الظھر و لم یقعد علی راس الرکعتین جاز استحساناً) اھ‘‘ترجمہ : بے شک ایک شفع سے نیابت تروایح کے ساتھ خاص ہےاور بہرحال بقیہ سنن اور نوافل تو اگر چار رکعت پڑھیں جیساکہ ظہر کی سنتیں یا چاشت کی نماز اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا ،تو مذہب صحیح پر استحسانا چاروں رکعتیں صحیح ہوجائیں گی ،اور ہندیہ میں محیط کے حوالے سے ہے کہ (ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھی اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا، تو استحسانا ،جائز ہے) ۔(جدالممتار، ج3،ص470،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   ایک دوسرے مقام پر فرمایا:’’ فالصحیح فی التراویح النیابۃ عن شفع واحد مطلقاً ولو صلی اربعاً و لم یقعد الا فی الآخر والصحیح فی غیرھا صحۃ الکل ان صلی اربعاً ،وفساد الکل ان زاد،فاغتنم ھذا التحریر ،واللہ ولی التوفیق‘‘ترجمہ : پس تراویح میں صحیح یہ ہے کہ مطلقا ایک شفع سے نیابت درست ہے اگرچہ چار رکعت پڑھے اور صرف آخر میں قعدہ کرے اور تراویح کے علاوہ میں صحیح قول یہ ہے کہ پوری نماز درست ہوگی اگر چار رکعت پڑھیں ،اور پوری نماز فاسد ہوجائے گی اگر چار سے زیادہ رکعتیں پڑھیں،تو اس تحریر کو غنیمت سمجھو۔اور اللہ توفیق کا ولی ہے۔ (جدالممتار،ج3،ص468،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اشکال:اوپر عام سنن و نفل اور تروایح میں فرق کرتے ہوئے ،ایک قعدہ کے ساتھ آٹھ رکعات تروایح کے متعلق یہ حکم بیان کیا گیا کہ دو شمار ہوں گی اور اس صورت میں عام سنن و نفل پوری باطل ہوں گی۔ایک قعدہ کے ساتھ پڑھی گئی چار رکعت تروایح کا دوشمار ہونا ،تو واضح ہے ،مگر چار سے زائد جیسے آٹھ یا بیس رکعات میں بھی یہی حکم ہونا مزید تنقیح و تائید کا محتاج ہے، کیونکہ درمختار میں ایک قعدہ کے ساتھ پڑھی گئی بیس رکعت کے دو شمار ہونےاور اسے مفتی بہ قرار دینے پر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نےاختلاف تصحیح کا دعوی کیا ہے یعنی ایک تصحیح اگرچہ دو شمار ہونا بھی ہے،لیکن دوسری تصحیح یہ بھی ہے کہ عام سنن و نوافل کی طرح مکمل باطل ہوں۔چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ تفصیل بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:’’فقد اختلف التصحیح فی الزائد علی الاربعۃ بتسلیمۃ و قعدۃ واحدۃ‘‘ (رد المحتار،ج 2،ص599،مطبوعہ کوئٹہ)

   جواب:ایک قعدہ کے ساتھ چار سے زائد جیسے آٹھ یا بیس رکعات تراویح کا بھی یہی حکم ہے کہ باطل نہیں ہوں گی،بلکہ صرف دو شمار ہوں گی۔باقی جو علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف تصحیح کا دعوی کیا ہے،سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے اس کا رد کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہاں بھی صرف ایک ہی تصحیح ہے کہ  دو شمار ہوں گی اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کا اختلاف ِتصحیح کا دعوی ،نفل والے مسئلہ سے اشتباہ کی وجہ سے ہے۔

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’اقول:تعلم مما حققنا ان الزائد علی الاربع ان کان التراویح فلا تصحیح الا للنیابۃ عن شفع واحد بل ھو التصحیح فی اربع التروایح ایضاً وان کان نفلاً آخر فلا تصحیح الا لفساد الکل وان ذکر فی الترشیح صحۃ الکل ‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں:ہم نے جو تحقیق کی اس سے تم جان چکے ہوگے کہ چار رکعت سے زائد اگر تراویح ہو ،تو ایک شفع سے نیابت کے علاوہ کوئی تصحیح نہیں ہے ،بلکہ چار رکعت تروایح میں بھی وہی تصحیح ہے اور چار رکعت سے زائد اگر نفل ہوں ،تو تمام رکعات کے فاسد ہوجانے کے علاوہ کوئی تصحیح نہیں ہے،اگرچہ ترشیح میں تمام رکعات کے صحیح ہونے کو ذکر کیا۔(جد الممتار،ج3،ص484،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن چار سے زائد رکعت تراویح کا حکم بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں: ’’والحاصل ان العلامۃ المحشی رحمہ اللہ تعالی قد اشتبھت علیہ مسالۃ التراویح بالنفل،وعلی ھذا الاشتباہ ساق الکلام من شروع الباب الی ھنا‘‘ترجمہ:اور حاصل کلام یہ ہے کہ علامہ محشی علیہ الرحمۃ پر تروایح کا مسئلہ نفل کے مسئلہ کے ساتھ مشتبہ ہوگیا اور اسی اشتباہ کی بنا پر انہوں نے باب کے شروع سے یہاں تک کلام کیا ہے۔(جد الممتار،ج3،ص484،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم