Kya Hadees Mein Aane Wala Wazifa Namaz Mein Sana Ke Baad Parh Sakte Hain ?

حدیث میں وارد ہونے والے اورادنماز میں ثنا کے بعدپڑھنا کیسا ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12476

تاریخ اجراء:        18 ربیع الاول 1444 ھ/15 اکتوبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  صحیح مسلم شریف میں حضرت ابنِ عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا:”اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا“۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:فلاں ، فلاں کلمات کہنے والا کون ہے؟تو اس آدمی نے کہا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں  ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے ان کلمات پر بہت حیرت ہوئی کہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے۔

(صحیح مسلم،حدیث 601)

   مذکورہ بالا روایت میں جو تسبیحات پڑھنے کا ذکر ہے ،کیا یہ تسبیحات ثنا پڑھنے کے بعد نماز میں پڑھی جا سکتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فرض نمازوں میں صرف ثنا (یعنی سبحانک اللھم)پر اکتفا کیا جائے گا،اس پر اضافہ نہیں کیا جائے گا، احادیث میں ثنا کی جگہ جو اوراد و اذکاروارد ہوئے ہیں وہ نفل نمازمیں پڑھنے پر محمول ہیں یعنی اگر کوئی شخص نوافل میں ثنا پڑھنے کے بعد مذکورہ اذاکار یا دیگر احادیث میں وارد ہونے والے اذکار پڑھتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ مستحب ہے۔

درِ مختار میں ہے:”(قرا سبحانک اللھم مقتصرا علیہ )فلا یضم وجھت وجھی الا فی النافلۃ“یعنی نمازی ”سبحانک اللھم“ پڑھے گا ،اس پر اکتفا کرتے ہوئے اور ”وجھت وجھی“ نہیں ملائے گا مگر نوافل میں۔(الدر المختار مع الشامی، جلد2،صفحہ 231،مطبوعہ:بیروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”الا النافلۃ“کے تحت فرماتے ہیں:”لحمل ما ورد فی الاخبار علیھا فیقرؤہ فیھا اجماعا۔۔۔۔وفی الخزائن :ماورد محمول علی النافلۃ بعد الثناء فی الاصح“یعنی اس وجہ سے کہ احادیث میں جو (اوراد)وارد ہوئے وہ نوافل پر محمول ہیں ، تو بالاجماع ان اوراد کو نوافل میں پڑھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔اور خزائن میں ہے:جو اوراد (حدیث میں)وارد ہوئے وہ اصح قول کے مطابق ثنا کے بعد نفل نماز پر محمول ہیں۔(ردالمحتار، جلد2،صفحہ 231،مطبوعہ:بیروت)

   نفل نماز میں ثنا کےبعددیگراوراد پڑھنے کے متعلق مشکاۃ المصابیح میں نسائی شریف سے منقول ہے کہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، فرمایا: ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا قام یصلی تطوعا ،قال:اللہ اکبر، وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ۔ وذکرالحدیث مثل حدیث جابر الا انہ قال:وانا من المسلمین۔ثم قال:اللھم انت الملک لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک، ثم یقرا“یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نفل پڑھنے کھڑے ہوتے ،تو کہتے:اللہ اکبر، وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین۔ بقیہ حدیث  حضرت جابر کی حدیث کی مثل ذکر فرمائی، سوائےاس کے کہ کہا:وانا من المسلمین۔ پھر کہا:اللھم انت الملک لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قراءت فرماتے۔ (مشکوۃ المصابیح مع المرقاۃ، جلد2،صفحہ 504،مطبوعہ:کوئٹہ)

   مذکورہ حدیث کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”ظاھرہ یؤید مذھبنا المختار ان یقرا بوجھت وجھی فی النوافل والسنن “یعنی اس حدیث کا ظاہر ہمارے مختار کا مذہب کی تائید کرتا ہے کہ” وجھت وجھی“ نوافل و سنن میں پڑھا جائےگا۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد2،صفحہ 504،مطبوعہ:کوئٹہ)

   خاتم المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نماز میں ثنا کے علاوہ پڑھے جانے والے اوراد کے متعلق فرماتے ہیں:”ما روی سوی ذلک فھو محمول علی التھجد بل مطلق النوافل لما ثبت فی صحیح ابی عوانۃ  والنسائی :انہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا قام یصلی تطوعا قال:اللہ اکبر ،وجھت وجھی ۔۔۔الی آخرہ، فیکون مفسرا لما فی غیرہ بخلاف :سبحانک اللھم، فانہ المستقر علیہ فی الفرائض “یعنی اس(سبحانک اللھم) کے علاوہ جو اوراد مروی ہیں وہ تہجد بلکہ مطلق نوافل پر محمول ہیں ،کیونکہ صحیح ابی عوانہ و نسائی میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب  نفل نماز ادا فرماتے ، تو کہتے: اللہ اکبر، وجھت وجھی ۔۔۔عبارت کے آخر تک(یعنی یہ دعا پڑھی: وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ)۔ تو یہ حدیث مفسر ہے دیگر حدیثوں کی  برخلاف”سبحانک اللھم“ کے کہ فرائض میں یہ دعا پڑھی جائے گی ۔ (لمعات التنقیح، جلد2،صفحہ 563،مطبوعہ:دمشق)

   مرآۃ المناجیح میں ہے:”یہ حدیث گذشتہ ساری حدیثوں کی شرح ہے جس نے بتا دیا کہ نماز کی یہ ساری دعائیں اور اذکار نوافل میں ہیں“(مرآۃ المناجیح، جلد2،صفحہ 41، نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

   احادیث میں جو اوراد نقل ہوئے وہ نوافل میں پڑھنا مستحب ہے۔اس کے متعلق ھدیہ ابن العمادمیں ہے: ” و یستحب  ان یزید فی اذکار صلاۃ النوافل مما ورد عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم“یعنی مستحب یہ ہے کہ نمازِ نوافل کے اذکار میں زیادہ کرے وہ اوراد جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وارد ہوئے۔(ھدیہ ابن العماد مع نھایۃ المراد، صفحہ 673،مطبوعہ:دمشق)

   سوال میں نقل کئے گئے اورادبھی نفل نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ علامہ علی بن سلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ نفل نماز میں  پڑھے جانے والے اوراد بیان کرتے ہوئے الحرز الثمین میں فرماتے ہیں:”(وفی صلاۃ التطوع ۔د) ای:رواہ ابو داؤد عن جبیر بن مطعم (اللہ اکبر کبیرا ثلاثا، الحمد للہ کثیرا ثلاثا ، سبحان اللہ بکرۃ واصیلا  ثلاثا )“یعنی نفل نماز میں (پڑھے)جس کو امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے جبیر بن مطعم سےروایت کیا:اللہ اکبر تین بار، الحمد للہ کثیرا تین بار، سبحان اللہ بکرۃ واصیلا تین بار۔ (الحرز الثمین للحصن الحصین، الجزء الثانی، صفحہ 716۔717،مطبوعہ:ریاض)

   بہارِ شریعت میں ہے:”تحریمہ کے بعد فوراً ثنا پڑھے اور ثنا میں وجل ثناؤک غیر جنازہ میں نہ پڑھے اور دیگر اذکار جو احادیث میں وارد ہیں وہ سب نفل کے لئے ہیں“(بہار شریعت،جلد1،صفحہ 523،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم