Kya Samay Ke Ilawa Koi Aur Shakhs Luqma Nahi De Sakta ?

کیا سامع کے علاوہ کوئی اور شخص لقمہ نہیں دے سکتا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8819

تاریخ اجراء: 07 رمضان المبارک1445ھ/18 مارچ  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ ہماری مسجد میں انتظامیہ کی جانب سے یہ لکھ کر لگایا ہے کہ سامع کے علاوہ کسی فرد کو لقمہ دینے کی اجازت نہیں ہے،دیگر مساجد میں بھی اس طرح کا رجحان دیکھا ہےکہ کسی اَور کے لقمہ دینے پر سختی برتی جاتی ہے،بعض اوقات حافظ صاحب غلطی  کر رہے ہوتے ہیں اور سامع بتا نہیں پا رہا ہوتا،تو کیا ایسی صورت میں بھی کوئی دوسرا فرد لقمہ نہیں دے سکتا؟ حالانکہ اس کو معلوم ہو کہ حافظ صاحب غلطی  کر رہے ہیں اور وہ بتا بھی سکتا ہو،رہنمائی فرمائیے شریعت اس بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین شریعت کی روشنی میں اگر امام نماز میں ایسی غلطی کر رہا ہوکہ جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،تو اصلاحِ نماز (نماز کی درستی)کےلیے ہر مقتدی پر بتانا فرضِ کفایہ ہے،ان میں سے کسی ایک نے بھی بتا دیا،تو سب  کے ذمہ سے فرض اتر جائے گا،اگر کوئی بھی نہ بتائے ،توجتنے جاننے والے ہوں گے،سب گنہگار ہوں گے اور اگر اس غلطی سے نماز فاسد نہ ہوتی ہو،تب بھی اگر کوئی آیت یا اس کا کلمہ رہ جائے،تو لقمہ دینا جائز ہے،بلکہ تراویح میں پورے  قرآن کریم کا ختم کرنا مقصود ہوتا ہے  اور کچھ حصہ بھی رہ جانے سے یا کسی غلطی کے ساتھ وہ مکمل نہیں ہوگا،لہٰذا جب امام نہ پڑھ پا رہا ہویا کچھ حصہ چھوڑ کر آگے  پڑھنا شروع کر دے،تو اگرچہ اس غلطی سے نماز میں کچھ بھی خرابی نہیں آئے گی، تب بھی بتایا جائے تاکہ ختمِ قرآن کریم کا مقصود پورا ہو سکے،نیز ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک مخصوص فرد کو سامع مقرر کر دینے سے بقیہ افراد کو بتانے کی اجازت نہیں رہتی،لہٰذا جب شریعتِ مطہرہ نے یہ حق عام مقتدیوں کو دیا ہے، تو انتظامیہ یا کسی دوسرے فرد کے منع کرنے سے وہ حق ختم نہیں ہوسکتا۔

   اور جہاں تک  صورتِ  مذکورہ میں انتظامیہ کے اس طرح منع کرنے اور سختی برتنے کاتعلق ہے،تو مطلقاً (یعنی ہر صورت میں)یہ عمل درست نہیں  ہے،بلکہ بعض صورتوں میں منع کرنے والے سخت گناہ کے مرتکب ہوں گے،البتہ اگر غلط لقمہ دینے والوں یا جان بوجھ کر امام کو تشویش میں ڈالنے والوں کو منع کیاجاتا ہو،تو یہ بالکل درست اور جائز بات  ہے۔

   جب امام ایسی غلطی کرے جو مفسدِ نماز ہو،تو ہر مقتدی پر بتانا  فرض کفایہ ہے، جیساکہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں:امام جب ایسی غلطی کرے جو مُوجِب ِفسادِنماز ہو، تو اس کا بتانا اور اصلاح کرانا ہرمقتدی پرفرض کفایہ ہے،ان میں سے جوبتادے گا سب پر سے فرض اُترجائے گا اور کوئی نہ بتائے گا ،توجتنے جاننے والے تھے سب مرتکبِ حرام ہوں گے اور نماز سب کی باطل ہوجائے گی۔’’وذٰلک لان الغلط لما کان مفسدا کان السکوت عن اصلاحہ ابطالا للصلاۃ وھو حرام بقولہ تعالیٰ ﴿وَ لَا تُبْطِلُوۡۤا اَعْمَالَکُمْ ‘‘ یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ غلطی جب نماز کو فاسد کرنے والی ہو،تو اس کی اصلاح کرنے پرخاموشی،نماز کو باطل کرنے کا باعث ہے اور یہ  (عمل کو باطل کرنا)اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک" اور اپنے اعمال باطل نہ کرو"کی وجہ سے حرام ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد07،صفحہ280 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں : قراءت میں اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے نماز فاسد ہوتی ہے، جب تو اصلاحِ نماز کے لیے لقمہ  ضرور  ہےاور اگر ایسی غلطی نہیں جب بھی صحیح لقمہ دے سکتا ہےاور امام لے سکتا ہے،اگر چہ تین آیتیں پڑھ چکا ہو۔ ‘‘ (فتاویٰ امجدیہ، جلد1، صفحہ277،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

   لقمہ دیناشرعاًسب مقتدیوں کا حق ہے،اس لیے کہ احادیث  مبارکہ اور اقوالِ فقہاءمیں لقمہ دینے کا حکم مطلق بیان ہوا ہے اور فقہ کا اُصول ہےکہالمطلق یجری علی اطلاقہیعنی مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے،چنانچہ لقمہ دینے کے متعلق سنن ابوداؤد ، مستدرک للحاکم،سنن كبری للبیہقی  اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے:عن سمرة قال: ‌أمرنا النبي صلى اللہ عليه وسلم ‌أن ‌نرد ‌على ‌الامام ترجمہ: حضرت سمرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےہمیں حکم دیا کہ ہم امام پر اس کی غلطی کو  رد کریں۔(سنن ابو داؤد،کتاب الصلاۃ،جلد1،صفحہ 151،مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت شارحِ بخاری علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :855 ھ /1451ء) لکھتےہیں:قوله:أن نرد على الامام،اراد به:أن يفتح على إمامه إذا استفتح في الصلاة ترجمہ : حدیث پاک کے الفاظ  أن نرد على الامامسے  مراد یہ ہےکہ جب امام نماز میں لقمہ مانگے،تو مقتدی اس کو لقمہ دے۔(شرح سنن أبي داود للعيني،جلد 4 ،صفحہ 286،مطبوعہ  مکتبۃ الرشد،الریاض)

   اسی طرح سنن کبریٰ للبیہقی کی حدیث پاک میں ہے:عن أبي عبد الرحمن قال:قال علي رضي اللہ عنه : من السنة ‌أن ‌تفتح ‌على ‌الامام إذا استطعمك ،قلت لأبي عبد الرحمن: ما استطعام الامام؟ قال:إذا سكتترجمہ:حضرت ابو عبد الرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم   نے فرمایا : سنت یہ ہےکہ جب امام تم سے لقمہ مانگے ،تو اسے لقمہ دو ،(روای  کہتے ہیں )میں نے  حضرت  ابو عبد الرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے پوچھاکہ امام کے مانگنے کا مطلب  کیا ہے؟تو فرمایا کہ جب وہ خاموش ہوجائے۔(السنن الکبری للبیھقی،جلد3،صفحہ302،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   مذکورہ بالا دونوں احادیثِ مبارکہ کو بيان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:اور ان(لقمہ دینے کے)تمام احکام میں جملہ مقتدی یکساں ہیں،امام کو بتاناکسی خاص مقتدی کا حق نہیں، ارشاداتِ حدیث و فقہ سب مطلق ہیں۔(فتاویٰ رضویہ،جلد7،صفحہ283،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:کتبِ مذہب میں عموماً  یجوز فتحہ علی امامہ فرمایا،جس میں ضمیر مطلق مقتدی کی طرف ہے کہ اسے امام کو بتانے کی اجازت ہے، مسئلہ کی دلیل جوعلماء نے فرمائی وہ بھی تمام مقتدی کو شامل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ283،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جس علت کی طرف  اشارہ کیا اس کو علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:لو فتح على إمامه فلا فساد لأنه تعلق به إصلاح صلاته... لأنه لو لم يفتح ربما يجري على لسانه ما يكون مفسدا فكان فيه إصلاح صلاته ولاطلاق ما روي عن علي رضي اللہ عنه:إذا استطعمكم الامام فأطعموه واستطعامه سكوته ولهذا لو فتح على إمامه بعدما انتقل إلى آية أخرى لا تفسد صلاته وهو قول عامة المشائخ لاطلاق المرخصترجمہ:اگر مقتدی اپنے امام کو لقمہ دے ،تو نماز فاسد نہیں ہوگی،کیونکہ اس کے ساتھ اصلاحِ نماز متعلق ہے۔۔۔ اور اس لیے کہ اگر وہ لقمہ نہ دے،توبعض اوقات امام کی زبان پر ایسے کلمات جاری ہوجاتے ہیں،جومفسدِنماز ہوتے ہیں،نیز اس لیے بھی کہ  حضرت علی کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم سے مروی اس حدیث"جب امام تم سے لقمہ مانگے، تواسے لقمہ دو " کا اطلاق بھی یہی تقاضا کرتاہےاور  امام کا قراءت سے سکوت کرنا،لقمہ طلب کرنا ہے اور  یہی وجہ ہےکہ اگرامام کے دوسری آیت شروع کر دینے کے بعد لقمہ دیا گیا، تب بھی نماز فاسد نہ ہوگی اور یہی اکثر مشائخ کاقول ہے، کیونکہ لقمے کی  اجازت دینے والی نصوص مطلق ہیں۔(بحر الرائق،کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ۔۔۔، جلد2،صفحہ10،مطبوعہ کوئٹہ)

   سامع کو مقرر کرنے سے دوسروں کا حق ساقط نہیں ہوجاتا،جیساکہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے:قوم کا کسی کو سامع مقرر کرنے کے یہ معنیٰ نہیں ہوتے کہ اس کے غیر کو بتا نے کی اجازت نہیں اور اگر کوئی اپنے جاہلانہ خیال سے یہ قصد کرے بھی،تو اس کی ممانعت سے وہ حق کہ شرع مطہر نے عام مقتدیوں کودیا کیونکر سلب(ختم) ہوسکتاہے؟‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ284،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے،چنانچہ اس حوالے سے ہدایہ،بنایہ،تبیین الحقائق اور دررالحکام وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے:’’(وينبغي للمقتدي ‌أن ‌لا ‌يعجل ‌بالفتح) لامكان الاستفتاح ترجمہ : اور مقتدی کو چاہیے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے،اس لیے کہ ممکن ہے کہ امام خود لقمہ طلب کرلے۔(البناية شرح الهداية، جلد 2، صفحہ 416، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ، بیروت  )

   غیر سامع کے لقمہ دینے کے بارے میں حکم شرعی بیان کرتے ہوئے مفتی محمد وقار الدین رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1413ھ / 1992ء)لکھتے ہیں:’’قرآن غلط پڑھا جائے گا ،تو سننے والوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی تصحیح کریں۔ اس لیے نماز تراویح اور فرض نمازوں میں بھی جب پڑھنے والا غلطی کرے ،تو سننے والوں کو لقمہ کی اجازت دی گئی ہے ۔ سامع جو مقرر ہے اسے چاہیے کہ وہ لقمہ دے اور اگر وہ لقمہ نہ دے سکے ،تو پیچھے سننے والوں میں سے جو حافظ ہو یا کوئی اور جو اس غلطی کو سمجھتا ہے اور اسے صحیح الفاظ یاد ہیں،تو وہ بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ غلطی مختلف طرح کی ہوتی ہے،بعض صورتوں میں تو نماز فاسد ہو جاتی ہے،وہاں لقمہ دینا ضروری ہے تاکہ نماز صحیح ہو جائے،ورنہ سب کی نماز فاسد ہو جائے گی اور بعض جگہیں ایسی ہیں کہ حافظ سے کوئی آیت چھوٹ جائے یا کوئی کلمہ پڑھنے سے رہ گیا اور اس سے اگر چہ نماز تو فاسد نہ ہوتی ہو،(مگر)قرآن پورا سننے کا ثواب نہیں ملے گا، جب تک اس کی تصحیح نہ کرلی جائے،بلکہ سلام پھیر نے کے بعد بھی اگر ایسی غلطی یاد آئی یا بتائی گئی،تو آئندہ رکعت میں اس کو صحیح کر لیا جائے اس کے بعد قراءت شروع کی جائے ۔‘‘(وقار الفتاوی،کتاب  الصلاۃ،جلد 2،صفحہ 235،مطبوعہ  بزم وقار الدین، کراچی )

   سامع کے علاوہ کسی اَور فرد کے صحیح لقمہ دینے کی وجہ سے اس کو بُرا بھلا کہنا جائز نہیں،جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے: اور اس (لقمہ  دینے) کے سبب کسی مسلمان پرتشدد یامسجد میں آنے سے ممانعت یامعاذاﷲ مسجد سے نکلوادینا سخت حرام ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ284،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم