Kya Witr Namaz Ke Baad Nawafil Parh Sakte Hain?

کیا وِتر نمازکے بعد نوافل پڑھ سکتے ہیں ؟

مجیب:محمد فرحان افضل  عطاری

مصدق:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7350

تاریخ اجراء:07جمادی الاولیٰ1445ھ23/نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جب ہم عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں،تو اس میں وتروں کے بعد بھی دورکعت نفل پڑھتے ہیں،کیا وتروں کے بعد یہ نفل پڑھنا جائز ہے؟  آج کل سوشل میڈیا پہ یہ بات بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے کہ’’ وتروں کے  بعد نفل نہیں پڑھ سکتے،کیونکہ حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حکم دیا کہ تمہاری آخری نماز وتر ہونی چاہئے۔ (صحیح بخاری)‘‘برائے کرم اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازِ عشاء میں وتروں  کے بعد نفل پڑھنا،بلا شبہ جائز اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے،بلکہ سونے سے پہلے وتر ادا کرنے والوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو سونے سے پہلے وتر پڑھے،تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت نفل بھی ادا کرے، پھر اگر  تہجد کے لیے بیدار ہو گیا،تو  تہجد پڑھ لے،ورنہ یہی نفل تہجد کے قائم مقام ہو جائیں گے۔لہذا ان نوافل کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔

   حدیثِ پاک اور اس کا محمل:

   اور سوال میں جس حدیثِ پاک کا ذکر کیا گیا ،تو یہ مختلف کتبِ احادیث  میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہےکہ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم رات کی آخری نماز وتر بناؤ ‘‘لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ’’نمازِ وتر کے بعد نفل نہیں پڑھ سکتے‘‘درست نہیں۔تفصیل کچھ یوں ہے کہ نمازِوتر کی ادائیگی کے حوالہ سے احادیث میں دو باتیں بیان ہوئیں:(۱)جس شخص کو جاگنے پر اعتماد نہ ہو،تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ وتر ادا کر کے سوئے،جیسا کہ آج کل عموماً لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔(۲)جسے جاگنے پر اعتماد ہو،تو اس کے لیے مستحب و افضل یہ ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر ادا کرے،پھر اس میں بھی مستحب یہ ہے کہ تہجد وغیرہ کی ادائیگی کے بعد سب سے آخر میں وتر ادا کیے جائیں۔

   اب مذکورہ بالا حدیث کا تعلق اولاً:دوسری صورت کے ساتھ ہے ،یعنی اگر کوئی شخص رات کے آخری حصے میں وتر ادا کرے،تو وہ تہجد وغیرہ کی ادائیگی کے بعد آخر میں وتر پڑھے۔ثانیاً:اس شخص کے لیے بھی یہ  حکم  استحبابی ہے،وجوبی نہیں،لہذااگر کسی نے رات کے آخری حصے میں وتر پہلے پڑھ  لیے اور تہجد بعد میں ،تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں،مگر ایسا کرنا خلافِ افضل ہے۔اور رہی پہلی صورت،تواس کے ساتھ حدیث کا کوئی تعلق نہیں،بلکہ اس کے برخلاف نمازِ وتر کے بعد نفل ادا کرنے کی ترغیب موجود ہے،جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا،لہذا اس حدیث سے کسی بھی طور پر بعدِ وتر نوافل کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔  

   بعدِ وتر نوافل کی ترغیب پر حدیث:

   رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ان هذا السهر جهد وثقل،فاذا اوتر احدكم،فليركع ركعتين،فان قام من الليل والا كانتا له‘‘ترجمہ:بے شک یہ جاگنا مشقت اور نفس پر گراں ہے،پس جب تم میں سے کوئی شخص وتر پڑھے،تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نفل بھی ادا کرے،پس اگر وہ رات کو بیدار ہو  گیا(تو ٹھیک)ورنہ یہ دو رکعتیں تہجد کے قائم مقام ہو جائیں گی۔ (سننِ دارمی،ج2،ص993،حدیث1635 )

   اس کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے:’’ یعنی جسے تہجد میں جاگنے کی امید نہ ہو،وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لے،اگر تہجد کے لیے جاگ گیا، تو تہجد بھی پڑھ لے،ورنہ ان شاءاﷲ ان دو نفلوں کا ثواب تہجد کے برابر ہوجائے گا۔یہ رب تعالیٰ کی اس امت مرحومہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ کرم نوازی ہے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص282،مطبوعہ، نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   بعدِ وتر نوافل کا حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ثبوت:

    (۱)حضرتِ امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں:’’ان  النبی صلى اللہ عليه وسلم كان يركع ركعتين بعد الوتر وهو جالس‘‘ترجمہ:بے شک حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ (مسند احمد،ج44،ص177،حدیث26553،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

    (۲)حضرتِ ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان النبی صلى اللہ عليه وسلم كان يصليهما بعد الوتر وهو جالس يقرأ فيهما:اذا زلزلت الارض وقل يا ايها الكافرون ‘‘ ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھےاور ان  میں سورہ زلزال اور سورہ کافرون پڑھتے تھے۔(مسند احمد،36،ص584تا585،حدیث22246،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

    (۳)حضرتِ ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سالت عائشة عن صلاة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم،فقالت: كان يصلی ثلاث عشرة ركعة، يصلی ثمان ركعات، ثم يوتر، ثم يصلی ركعتين وهو جالس،فاذا اراد ان يركع قام فركع، ثم يصلی ركعتين بين النداء والاقامة من صلاة الصبح‘‘ترجمہ:میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا،تو انہوں نے فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے،آٹھ رکعتیں پڑھنے کے بعد وتر پڑھتے،پھر بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے،پس جب رکوع کا ارادہ فرماتے،تو کھڑے ہوتے،پھر رکوع کرتے،پھر اذان و اقامت کے درمیان نمازِ فجر کی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔(صحیح المسلم،ج1،ص509،حدیث738،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’وتر کے بعد دو نفل پڑھنا مستحب ہے۔۔وہ جو حدیث شریف میں آیا کہ رات میں وتر کو آخری نماز بناؤ،وہاں تہجد سے مراد  آخر ہے،یعنی تہجد پہلے پڑھو،وتر بعد میں،یہ دو نفل تہجد نہیں۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج2،ص271،مطبوعہ،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   جاگنے پر اعتماد ہو،تو وتروں کی تاخیر مستحب ہے:

   حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من خاف ان لا يقوم من آخر الليل فليوتر اوله ومن طمع ان يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فان صلاة آخر الليل مشهودة وذلك افضل‘‘ترجمہ:جس کو خوف ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں اُٹھ نہیں سکتا، پس وہ اول حصہ ہی میں وتر پڑھ لے اور جس کو اعتماد ہو کہ وہ  رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے گا،تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھ سکتا ہے،کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔ (صحیح المسلم،ج1،ص520،حدیث755،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   سوال میں ذکر کردہ حدیث اور اس پر علماء کا کلام :

   حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا‘‘ترجمہ: رات کی آخری نماز وتر بناؤ۔(صحیح البخاری،ج2،ص25،حدیث998،مطبوعہ دار طوق النجاۃ)

   اس حدیثِ پاک کے تحت مشہور محدث و فقیہ،علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’وهذا الامر للاستحباب، فيستحب  للرجل ان يوتر آخر الليل ان وثق بالانتباه وان يجعله آخر جميع صلاته واما ما روی عنه عليه السلام:انه كان يداوم على ركعتين بعد الوتر ويجعلهما آخر صلاة الليل،فالمراد منه: بيان الجواز‘‘ترجمہ:یہ امر استحباب کے لیے ہے،پس آدمی کے لیے مستحب  ہے کہ اگر اسے جاگنے پر اعتماد ہو،تو وہ وتروں کو رات کے آخر تک مؤخر کرے اور انہیں تمام نمازوں کے بعد پڑھے۔بہر حال وہ جو مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد دو رکعتوں پر مداومت فرمائی اور انہیں رات کی آخری نماز بنایا،تو اس سے مراد بیانِ جواز ہے۔(شرح ابی داؤد للعینی،ج5،ص350،مطبوعہ ریاض)

   اورمفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ اس کی شرح ابھی عرض کی جاچکی ہے کہ یہ حدیث تہجد والوں کے لیے تہجد کے اعتبار سے ہے ۔۔ یعنی تہجد والے وتر تہجد سے پہلے نہ پڑھیں ۔۔لہذا یہ حدیث گزشتہ حدیث کے خلاف نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  وتر کے بعد دو نفل پڑھتے تھے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج2،ص272،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،کراچی)

   خاتم المحققین علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’(قوله:وتاخير الوتر الخ) ای يستحب تاخيره،لقولہ صلى الله عليه وسلم:"من خاف ان لا يوتر من آخر الليل فليوتر اوله ومن طمع ان يقوم آخره فليوتر آخر الليل فان صلاة آخر الليل مشهودة وذلك افضل"رواه مسلم والترمذی وغيرهما وتمامه فی الحلية وفی الصحيحين: "اجعلوا آخر صلاتكم وترا"والامر للندب بدليل ما قبله،بحر‘‘ترجمہ:اور وتر میں تاخیر مستحب ہے،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ جس کو خوف ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں اُٹھ نہیں سکتا، پس وہ اول حصہ ہی میں وتر پڑھ لے اور جس کو اعتماد ہو کہ وہ  رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے گا،تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے،کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔اسے امام مسلم،امام ترمذی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین علیہم الرحمۃ نے روایت کیا ہے اور اس کی مکمل بحث حلیۃ میں ہے۔اور صحیحین میں ہے:حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رات کی آخری نماز وتر بناؤ۔اس میں امر استحباب کے لیے ہے،اس دلیل کی وجہ سے جو پیچھے بیان ہوئی،بحر۔(ردالمحتار،ج1،ص369،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   نوٹ:اوپر احادیث میں بیان ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ وتر کے بعد بیٹھ کر نفل ادا فرماتے تھے،تو یاد رہے کہ یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔ہمارے لیے اس معاملہ میں ترغیب یہ ہے کہ نفل نماز اگرچہ بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں،لیکن  عذر نہ ہو،تو کھڑے ہو کر پڑھنا ہی افضل ہے،کیونکہ بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں، کھڑے ہو کر پڑھنے کی بنسبت آدھا ثواب ملتا ہے۔

   حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں:’’حدثت ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة،قال: فاتيته،فوجدته يصلي جالسا،فوضعت يدی على راسه،فقال: ما لك؟ يا عبد اللہ بن عمرو! قلت:حدثت يا رسول اللہ!انك قلت:"صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة"وانت تصلی قاعدا،قال:اجل ولكنی لست كاحد منكم ‘‘ترجمہ:مجھے یہ خبر پہنچی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے (یعنی اسے آدھا ثواب ملے گا )فرماتے ہیں :اس کے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور انہیں بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا ،تو میں نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے عبد اللہ بن عمر و!کیا ہوا؟میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا:بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے ،حالانکہ آپ خود بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے ہیں ۔فرمایا:ہاں ،لیکن میں تم جیسا نہیں ہوں ۔(صحیح المسلم ، ج1،ص253،حدیث 735،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   اس حدیث ِ مبارک کے تحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’(یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:)یہ جو میں نے کہا (کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو آدھا ثواب ملےگا،یہ حکم )میرے علاوہ میری امت کے دوسرے لوگوں کے لیے ہے ۔میں اس حکم سے بلند ہوں۔میرا پروردگار مجھے بیٹھ کر نماز پڑھنے پر بھی اتنا ہی ثواب عطا کرتا ہے ،جتنا مجھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر دیتا ہے ،کیونکہ اس کا میرے اوپر خصوصی فضل و کرم ہےیا یہ بات میرے ساتھ خاص ہے ،کیونکہ مجھے رب تعالی کی طرف سے انتہا درجہ کی توجّہ اور حضور و معرفت اور قرب نصیب ہے ۔مجھے دوسروں پر قیاس نہ کرو ،نہ دوسروں کو مجھ پر۔ (اشعۃ اللمعات مترجم،ج2،ص521،مطبوعہ فرید بک اسٹال ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم