Maghrib Ki Tisri Rakat Bila Uzr Beth Kar Ada Karna

مغرب کی تیسری رکعت بلا عذر بیٹھ کر ادا کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13213

تاریخ اجراء: 21 ربیع الثانی 1445 ھ/04 جنوری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز مغرب (قضا) کی ادائیگی کرتے ہوئے تیسری رکعت بلا عذر بیٹھ کر پڑھ لی، تو نماز ادا ہوگئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مغرب کی تیسری رکعت میں آپ پر  کم از کم ایک تسبیح کی مقدار قیام کرنا فرض تھا، لیکن بلا عذرِ شرعی وہ رکعت آپ نے کھڑے ہوئے  بغیر بیٹھ کر ادا کر لی، تو نماز کا فرض ترک کردینے کی وجہ سے نماز ادا نہ ہوئی ، اس نماز کو دوبارہ پڑھنا بدستور ذمہ پرفرض ہے۔

   فرض نماز خواہ ادا ہو یا قضا ، اس کی ہر ہر رکعت میں قیام  فرض ہے ۔  بلا عذرِ شرعی کسی رکعت میں قیام بالکل ہی ترک کردیا،تو فرض چھوڑ دینے کی وجہ سے نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔قیام کی مقدار کے متعلق علما نے یہ ضابطہ بیان فرمایاکہ پہلی دو رکعتوں میں جتنی  قراءت فرض ہےاتنی مقدار قیام فرض، جتنی  قراءت واجب اتنی مقدار قیام واجب اور جتنی قراءت سنت اتنی مقدار قیام مسنون ہے البتہ پہلی رکعت میں فرض قیام کی مقدار میں فرض قراءت کے ساتھ  ساتھ تکبیرِ تحریمہ کی مقدار  اور قیامِ مسنون میں ثنا، تعوذ و تسمیہ کی مقدار بھی شامل ہوگی اور فرض نماز کی تیسری و چوتھی رکعت میں چونکہ قراءت فرض یا واجب نہیں،  اس لئے ان میں ایک تسبیح کی مقدارقیام کرنا فرض ہوگا۔

   نور الایضاح و مراقی الفلاح میں ہے:”(و) یفترض (القیام) وھو رکن متفق علیہ فی الفرائض والواجبات“یعنی قیام فرض ہے اور یہ فرائض و واجبات میں متفق علیہ رکن ہے۔(مراقی الفلاح ، صفحہ 85، مطبوعہ: بیروت)

   مبسوط  سرخسی وبدائع الصنائع میں ہے:”أن القيام فرض في كل ركعة “یعنی بے شک قیام ہر رکعت میں فرض ہے۔(بدائع الصنائع، جلد1،صفحہ 177،مطبوعہ:بیروت)

   درِ مختار میں ہے:”مفروضہ وواجبہ ومسنونہ ومندوبہ بقدر القراءۃ فیہ“یعنی  فرض، واجب، مسنون اور مستحب قیام اس میں قراءت کی مقدار کے ساتھ  مقدرہے۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:”ذکرہ فی الشرنبلالیۃ بحثا لکن عزاہ فی الخزائن الی الحاوی ، وحینئذ فھو بقدر آیۃ فرض وبقدر الفاتحۃ وسورۃ واجب وبطوال المفصل واوساطہ وقصارہ فی محالھا مسنون “یعنی اس بات کو شرنبلالیہ میں بحثاً ذکر کیا لیکن مصنف نے اس کو خزائن میں حاوی کی طرف منسوب کیا لہذا  قیام ایک آیت کی مقدار فرض ہوگا، سورۂ فاتحہ و ایک سورت کی مقدار واجب ہوگا اور اپنے محل میں طوالِ مفصل ، اوساطِ مفصل و قصارِ مفصل کی مقدار مسنون ہوگا۔(ردالمحتار علی الدر  المختار ،جلد 1، صفحہ 444، مطبوعہ:بیروت)

   آخری دو رکعتوں میں بھی قیام فرض ہے۔اس کے تحت طحطاوی میں ہے:”وعندسقوط القراءۃ یسقط التحدید کالقيام في الشفع الثاني من الفرض لانہ لاقراءۃ فیہ فالرکن فیہ اصل القیام “یعنی  قراءت  ساقط ہونے پر قیام کی حد بندی بھی ساقط ہو جائے گی جیسے فرض نماز کے شفعِ ثانی میں قیام، کیونکہ شفعِ ثانی میں قراءت نہیں ، تو  ان رکعتوں میں رکن اصلِ قیام ہوگا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد1،صفحہ202، مطبوعہ:کوئٹہ )

   الجوھر الکلی میں ہے:”القیام مقدارفرض القراءۃ فی رکعتی الفرض وجمیع الواجب لا فی النفل  وقدر تسبیحۃ فی باقی الفرض“یعنی قیام فرض ہے فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں اور واجب کی تمام رکعتوں میں فرض قراءت کی مقدار،  نہ کہ نفل نماز میں اور فرض کی باقی رکعتوں میں ایک تسبیح کی مقدار۔(الجوھر الکلی شرح عمدۃ المصلی،صفحہ 167،مطبوعہ: بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قیام اتنی دیر تک ہے جتنی دیر قراءت ہے یعنی بقدرِ قراءت فرض ،قیام فرض اور بقدرِ واجب ،واجب اور بقدرِ سنت سنت۔یہ حکم پہلی رکعت کے سوا اور رکعتوں کا ہے ، رکعتِ اولیٰ میں قیامِ فرض میں مقدارِ تکبیر تحریمہ بھی شامل ہوگی اور قیامِ مسنون میں مقدارِ ثنا و تعوذو تسمیہ بھی (رضا) “(بہارِ شریعت،جلد1،صفحہ 510، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”فرض و وتر وعیدین و سنتِ فجر میں قیام فرض ہے کہ بلا عذرِ صحیح بیٹھ کر یہ نمازیں پڑھے گا،  نہ ہوں گی۔“(بہارِ شریعت،جلد1،صفحہ 510، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم