Masbooq Ne Bhule Se Imam Ke Sath Sajda Sahw Mein Salam Pher Diya, To Kiya Hukum Hai?

مسبوق نے بھولے سے امام کے ساتھ سجدہ سہو میں سلام پھیر دیا، تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-4416

تاریخ اجراء:20صفر المظفر 1443 ھ/28ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے  میں کہ میں ظہر کی جماعت میں دوسری رکعت میں شامل ہوا ، نماز کے دوران امام سے سہو واقع ہوا، جس کی وجہ سے امام نے سجدہ سہو کرنا تھا، تو جب امام نے آخر میں سجدہ سہو کے لیے سلام پھیرا، تو میں نے بھی بھولےسے سلام پھیردیا اور بالکل امام کے سلام سے متصل  سلام نہیں پھیرا، بلکہ تھوڑا تاخیر سے پھیرا ، بعد میں اپنی نماز میں سجدہ سہو بھی نہیں کیا ، تو کیا میری  نماز ہوگئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسبوق کے لیےامام کے ساتھ  سجدہ سہو کرنے کے حوالے سے یہ حکم ہے کہ وہ سجدہ سہوتوکرے گا ،لیکن سجدہ سہو کے لیے کیے جانے والے سلام میں امام کی پیروی نہیں کرے گا یعنی سلام نہیں پھیرے گا ۔ اس کے باوجود اگر اس نے قصداً امام کے ساتھ سلام پھیر دیا ،تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی ،اور اس کودوبارہ نماز پڑھنی ہوگی ، اور اگر بھولے سے امام کے ساتھ سلام پھیرا ،تو اس صورت میں چاہے بالکل امام کے سلام سے متصل سلام پھیرا ہو یا امام کے سلام سے پہلے یا بعد میں سلام پھیرا ہو ، بہر صورت اس کی نماز ہوجائے گی اورکسی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، لہذا صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ نے بھولے سے سلام پھیرا ، تو آپ پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا اور آپ کی نماز ہوگئی ،دوبارہ لوٹانے کی حاجت نہیں ۔

   سجدہ سہو میں مسبوق امام کی پیروی کرے گا ۔چنانچہ تنویر الابصار مع  در مختار میں سجدہ سہو کے باب میں ہے :’’(والمسبوق یسجد مع امامہ مطلقاً )سواء کان السھو قبل الاقتداء او بعدہ ،(ثم یقضی مافاتہ )‘‘اور مسبوق امام کے ساتھ مطلقاً سجدہ (سہو )کرے گا یعنی سہو چاہے اس کی اقتداء سے پہلے لاحق ہوا ہو یا بعد میں ،پھر اپنی بقیہ نماز جو رہ گئی تھی  پوری کرے گا  ۔

   تنویر الابصار کی عبارت (والمسبوق یسجد مع امامہ ) کے تحت رد المحتار میں ہے :’’قید بالسجود ،لانہ لا یتابعہ فی السلام ،بل یسجد و یتشھد ‘‘اس سے آگے بحر کا اقتباس ہے : ’’فاذا سلم الامام قام الی القضاء ،فان سلم ، فان کان عامداً فسدت ،والا لا، ولا سجود علیہ ان سلم سھواً قبل الامام اومعہ ، وان سلم بعدہ لزمہ ،لکونہ منفرداً حینئذٍ، بحر ‘‘صرف سجدے کے ساتھ اس لیے مقید کیا ،کیونکہ مسبوق  سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا، بلکہ وہ سجدہ کرے گا اور تشہد پڑھے گا ۔ پھر جب امام (نماز سے باہر ہونے کے لیے )سلام پھیر ے ،تو مسبوق اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے گا ۔اگر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا ، تو اگر جان بوجھ کر سلام پھیرا ،تو نماز فاسد ہوجائے گی ،وگرنہ نہیں ، پھر اس صورت میں (بھول کر سلام پھیرنے کی صورت میں )اگر اس نے امام سے پہلے یا امام کے سلام سے بالکل متصل سلام پھیرا ،تواس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا ، اور اگر اس نے امام کے بعد سلام پھیرا ،تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا ،کیونکہ اس وقت  وہ منفرد تھا،بحر ۔(در مختار مع رد المحتار ج2،ص659،مطبوعہ کوئٹہ )

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ رد المحتار کی اس عبارت (فان سلم بعدہ لزمہ ) کے تحت فرماتےہیں :’’ای السلام الکائن فی آخر الصلوٰۃ بعد سجود السھو لانقضاء الاقتداء بخلاف السلام الذی قبل سجود السھو ، فانہ لو اتی بہ ساھیا لاسھو علیہ مطلقاً،لبقاء القدوۃ بعد ، نعم ! لو تعمدہ بطلت صلاتہ بوقوعہ فی خلال صلاتہ ‘‘یعنی سجدہ سہو اس سلام کو امام کے بعد پھیرنے سے لازم ہوگا جو سجدہ سہو کے بعد نماز کے آخر میں ہوتا ہے ،اقتداء ختم ہونے کی وجہ سے ، بخلاف اس سلام کے کہ جو سجدہ سہو سے پہلے ہوتا ہے، کیونکہ اگر بھولے سے اس کوبجالایا، تو مطلقا(بہر صورت ) اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ، اقتداء باقی ہونے کی وجہ سے ۔ ہاں اگر جان بوجھ کر یہ سلام پھیرا ،تو مسبوق کی نماز باطل ہوجائے گی ، اس سلام کے اس کی نماز کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے ۔ (جد الممتار ،ج3،ص532،مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   یونہی  فتاویٰ رضویہ میں ہے :’’مسبوق سلام سے مطلقاً ممنوع و عاجز ہے، جب تک فوت شدہ رکعات ادا نہ کرلے ، امام سجدہ سہو سے قبل یا بعد جو سلام پھیرتا ہے، اس میں اگر قصدا ًاس نے شرکت کی، تو اس کی نماز جاتی رہے گی کہ یہ سلام عمدی اس کے خلال نماز میں واقع ہوا ، ہاں اگر سہواً پھیرا، تو نماز نہ جائے گی ’’لکونہ ذکرا من وجہ ،فلایجعل کلاما من غیر قصد وان کان العمد والخطا والسھو کل ذٰلک فی الکلام سواء ، کما حققہ علماءنا رحمھم اللہ تعالیٰ ‘‘بلکہ وہ سلام جو امام نے سجدہ سہو سے پہلے کیا اگر مسبوق نے سہواً امام سے پہلے خواہ ساتھ خواہ بعد پھیرا یا وہ سلام جو امام نے سجدہ سہو کے بعد یا بلاسجدہ سہو غرض بالکل ختم نماز پر کیا اگر مسبوق نے سہواً امام سے پہلے یا معاً بلا وقفہ اس کے ساتھ پھیرا ، تو ان صورتوں میں مسبوق پر سہو بھی لازم نہ ہوا کہ وہ ہنوز مقتدی ہے اور مقتدی پر اس کے سہو کے سبب سجدہ لازم نہیں ۔ہاں یہ سلام اخیر اگر امام کے بعد پھیرا، تو اس پر سجدہ اگرچہ  کرچکا ہو دوبارہ لازم آیا کہ اپنی آخرِ نماز میں کرے گا ،اس لیے کہ اب یہ منفرد ہو چکا تھا ۔(فتاویٰ رضویہ، ج3،ص634،مطبوعہ مکتبہ رضویہ ،کراچی )

   تنبیہ :اگر مسبوق نے سجدہ سہو کے بعد والے سلام میں ،امام کے سلام کےبعد بھولے سے سلام پھیر لیا ، تو اس صورت میں مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوگا ، جو وہ اپنی بقیہ نماز کے آخر میں کرے گا ۔مزید اس حوالے سے جزئیات کی تحقیق و تنقیح کے لیے فتاویٰ رضویہ جلد 3،ص634،مطبوعہ : مکتبہ رضویہ ،  پر موجود فتویٰ ملاحظہ کریں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم