Masbooq Ne Maghrib Ki Dosri Rakat Par Qada Na Kiya Tu

مسبوق نے مغرب کی دوسری رکعت پرقعدہ نہ کیا تو

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1934

تاریخ اجراء:10صفرالمظفر1445ھ/28اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں نے مغرب کی  نماز امام کے ساتھ پڑھی، لیکن مجھے امام کے ساتھ ایک رکعت ملی اور پھر میں نے جب اپنی دو رکعتیں پڑھیں، توان دو رکعتوں کے بیچ میں  قعدہ کئے بغیر دو رکعتیں ادا کیں اورسلام پھیر دیا، کیا مجھے یہ نماز دوبارہ ادا کرنی ہو گی  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مختارقول کے مطابق ہوناتویہ چاہیے تھاکہ امام کے سلام پھیرنے کے بعدجوپہلی رکعت  آپ نے اداکی، آپ اس پرقعدہ کرتے اوریہی قیاس کاتقاضابھی ہے ،اورقیاس کے مطابق قصدااس قعدے کے ترک کرنے پرنماز واجب الاعادہ ہونی چاہیے لیکن استحسانا  اس قعدے کے بغیربھی نماز کےدرست  ہونے اورنمازواجب الاعادہ نہ ہونےکاحکم دیاگیاہے کیونکہ من وجہ( یعنی قراءت کے اعتبارسے) مسبوق کی یہ رکعت  پہلی بھی ہے اورپہلی رکعت پرقعدہ نہیں ہوتا۔

   فتاوی رضویہ میں سوال ہوا" س کہتاہے جس کو مغرب کی تیسری رکعت جماعت کے ساتھ ملے وہ جب اپنی نمازپوری کرنے کھڑا ہوتو اپنی دوسری رکعت میں قعدہ کرے کیونکہ قاعدہ مصرحہ ہے نماز مسبوق درحق قرأت حکم اول نمازدارد ودرحق قعود حکم آخرنماز مسبوق کی باقی ماندہ نماز) قرأت کے لحاظ سے اول اور بیٹھنے میں آخر کاحکم رکھتی ہے۔ت) ع کہتاہے مسبوق دوسری رکعت پرقعدہ نہ کرے کہ بعض کتب فقہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور جو دوسری رکعت پر قعدہ کرے گا توتینوں رکعات علیحدہ علیحدہ ہوجائیں گی، پس سوال یہ ہے کہ قول س کا قابل عمل ہے یاع کا۔ "

   اس کے جواب میں فرمایا:

   " قول س کا صحیح ہے، ائمہ فتوٰی سے اسی کااختیار مفیدترجیح ہے، کتب معتمدہ میں اس کی تصریح ہے، درمختارمیں ہے: "یقضی اول صلاتہ فی حق قراء ۃ واٰخرھا فی حق تشھد فمدرک رکعۃ من غیرفجریاتی برکعتین بفاتحۃ وسورۃ و تشھد بینھما وبرابعۃ الرباعی بفاتحۃ فقط ولایقعد قبلھا"( قرأۃ کے حق میں وہ اپنی ابتدا نماز اور تشہد کے حق میں آخرنماز تصورکرکے اداکرے فجر کے علاوہ ایک رکعت پانے والا دورکعتوں کو فاتحہ اور سورت کے ساتھ اداکرے اور ان کے درمیان قعدہ بھی کرے اور چاررکعتی نماز میں چوتھی رکعت کو صرف فاتحہ کے ساتھ اداکرے اور اس سے پہلے قعدہ نہ کرے۔)خلاصہ و ہندیہ میں ہے:" لوادرک رکعۃ من المغرب قضی رکعتین وفصل بقعدۃ فتکون بثلث قعدات" اگرکسی نے مغرب کی ایک رکعت پائی تو وہ باقی ماندہ دوبجالائے اور ان کے درمیان قعدہ کے ساتھ فاصلہ کرے تو یہاں تین قعدے ہوجائیں گے)

   یہاں تک کہ غنیہ شرح منیہ میں فرمایا اگرایک رکعت پڑھ کرقعدہ نہ کیا توقیاس یہ ہے کہ نمازناجائز ہو یعنی ترک واجب کے سبب ناقص وواجب الاعادہ البتہ استحساناً حکم جواز وعدم وجوب اعادہ دیاگیاکہ یہ رکعت من وجہ پہلی بھی ہے، ردالمحتارمیں ہے:" قال فی شرح المنیۃ ولولم یقعد جاز استحساناً لاقیاسا ولم یلزم سجود السھو لکون الرکعۃ اولی من وجہ"شرح المنیہ میں فرمایا ہے اگر اس نے ایک رکعت پڑھ کر قعدہ نہ کیا تو اگرچہ قیاساً نماز درست نہیں مگراستحساناً درست ہے اور اس پر سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ ایک لحاظ سے یہ پہلی رکعت ہے۔)"(فتاوی رضویہ،ج07،ص233،234،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم