Masjid Ke Liye Waqf Kiya Hua Plot Bech Kar Dusri Jagah Masjid Banana

مسجد کے لیے وقف کیا ہوا پلاٹ بیچ کر دوسری جگہ مسجد بنا سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8970

تاریخ اجراء: 4 ذوالحجۃ الحرام1445ھ/یکم جولائی  2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے مسجد کے لیے 5 مرلے کا پلاٹ وقف کر دیا، کچھ عرصے بعد اس کے بھائی نے بھی اُس پلاٹ سے متصل مزید 5 مرلے کا پلاٹ مسجد کے لیے وقف کیا، اب مکمل رقبہ 10 مرلے ہے، مسجد بنانے کے لیے ان دس مرلوں کی تقریباً چار فٹ تک بنیادیں بھی اٹھائی جا چکی ہیں، اب معاملہ یہ ہے کہ اس دس مرلہ پلاٹ کے بالکل سامنے ایک اور 10 مرلے کا کارنر والا پلاٹ ہے، جسے 2 گلیاں لگتی ہیں، اب دونوں واقِف یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ 10 مرلہ سنگل گلی والے پلاٹ کو فروخت کر کے اُس کی قیمت سے سامنے کارنر اور ڈبل گلی والے پلاٹ کو خرید کر وقف کریں اور اُس پر مسجد تعمیر کریں، کیا اس کی شرعاً اجازت ہے؟

   نوٹ:واقِفین نے موقوفہ  پلاٹ کو وقف کرتے ہوئے استبدال کی شرط نہیں لگائی تھی۔ مطلقاً وقف کیا تھا۔جگہ بدلنے کا ذہن بعد میں بنا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ میں  وقف ہو جانے کے بعد خود اِس واقف یا کسی بھی دوسرے فرد کا اُس جگہ کو کسی دوسری جگہ سے تبدیل کرنا، جائز نہیں، خواہ دوسری جگہ قیمت، حیثیت یا دیگر فوائد کے اعتبار سے اعلیٰ ہو ۔ اگر اس کی اجازت ہوتی ،تو آج لاکھوں مسجدیں تبدیل کردی جائیں کہ ہر مسجد آئیڈیل  جگہ پر بنی ہوئی نہیں ہے۔

   مسجد کی جگہ کو بیچنے کے متعلق   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمدرضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /1921ء) سے سوال  ہوا کہ کیا مسجد کی جائیدا دکو بیچا جا سکتا ہے، تو آپ نے جواباً لکھا:’’یہ چاروں صورتیں حرام قطعی ہیں ۔۔۔پہلی صورت (مسجد کی جگہ بیچنے) کی حرمت تو ظاہر، ہر شخص جانتا ہے کہ: ’’الوقف لایملک لایباع ولایورث‘‘یعنی وقف ملکیت نہیں بن سکتا، نہ  ہی بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی وراثت بن سکتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد16،صفحہ142،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اگرچہ وقفی جائیداد کی تبدیلی میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی وقف کو اُس کی متعین  مد سے ہٹانا درست نہیں، چنانچہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’جو چیز جس غرض کے لیے وقف کی گئی،  دوسری غرض کی طرف اُسے پھیرنا ، ناجائزہے ،اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے فائدہ کی ہو کہ شرطِ واقف مثلِ نصِ شارع  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  واجب الاتباع ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد16،صفحہ452،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   لہذا معلوم ہوا کہ موقوفہ زمین میں کسی طرح کی تبدیلی جائز نہیں، چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’لا يجوز ‌تغيير ‌الوقف عن هيئته فلايجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دكانا، إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف‘‘ ترجمہ:وقف کواس کی ہیئت سے تبدیل کرنا،جائز نہیں،  لہذا گھر کا باغ بنانا ، سرائے کا حمام بنانا او ر ر باط کا دکان بنانا ،جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کرسکتاہو،  جس میں وقف کی مصلحت ہو، توجائز ہے۔(الفتاوٰى الھندیہ، جلد02، صفحہ490،مطبوعہ کوئٹہ)

   ”فتاوٰی عالمگیری“ کی اِس عبارت پر تعلیق قائم کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’ قلت فاذالم یجز تبدیل الھیأۃ فکیف بتغییر اصل المقصود‘‘ ترجمہ:میں یہ کہتا ہوں کہ جب ہئیتِ وقف کی تبدیلی جائز نہیں، تو  اصلِ مقصود میں تغیُّر کیسے جائز ہو سکتا ہے!‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد09،صفحہ457،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   لہذا صورتِ مسئولہ میں بہرحال اُ سی جگہ پر مسجد بنائی جائے کہ شریعت کا یہی حکم ہے۔ ”فتح القدیر“ میں ہے:’’أن الواجب ‌ إبقاء ‌الوقف ‌على ما كان عليه‘‘ ترجمہ:بے شک وقف کو اُسی حیثیت وحالت پر باقی رکھنا واجب ہے، جس پر وہ وقف ہوئی تھی۔(فتح القدیر، جلد06، کتاب الوقف، صفحہ212، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اور یاد رکھیے کہ اگر واقِف وقف کرتے وقت بھی تبدیلی کی شرط رکھتا کہ جب چاہوں ،  اِس مسجد والی جگہ کو بیچ دوں  اور کسی دوسری جگہ مسجد بنا لوں، تو پھر بھی  اُسے بیچا یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ احکامِ وقف پر امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے شاگرد ، امام ہلال  حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی معروف تصنیف ” کتاب احکام الوقف “ میں ہے:’’ قلت: ارایت رجلا جعل دارہ مسجدا للہ علی ان لہ ان یبیعہ فیستبدل بہ؟ قال المسجد جائز والشرط باطل  ولایکون لہ بیعہ‘‘ ترجمہ:میں نے عرض کی: آپ اُس شخص کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ جو اِس شرط پر اپنے گھر کو مسجد  کے لیے وقف کرے کہ اُسے اختیار حاصل ہے کہ جب چاہے بیچے اور جگہ کو تبدیل کر لے؟ آپ نے فرمایا: مسجد کا  وقف ہو جانا درست ہے، البتہ شرط باطل ہے، لہذا واقِف کو اُسے بیچنے  کا اختیار نہیں۔(کتاب احکام الوقف، صفحہ 99، مطبوعہ  حیدر آباد دکن)

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمدرضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےفتاوٰی رضویہ کے حاشیہ پر لکھا:’’ان الشرط الباطل باطل مطلقا لاتقبل حین الانشاء ولابعدہ‘‘ ترجمہ:بے شک ”شرطِ باطل“ ازخود مطلقاً باطل ہوتی ہے۔ وہ شرط نہ ہی وقف کرتے وقت قابلِ قبول ہے اور نہ ہی وقف کرنے کے بعد۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد16،صفحہ139،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم