Masjid Ke Qareeb Jamat Karwana Kaisa?‎

مسجد کے قریب جماعت کروانا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:sar:6314

تاریخ اجراء:07محرم الحرام1440ھ/18ستمبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اسکول میں پڑھتا ہوں ۔ میرا اسکول مسجد کے سامنے ہے ۔مسجد میں اگر بغیر اسپیکر بھی اذان دی جائے ، تو باآسانی پہنچ جاتی ہے ۔اسکول میں پڑھتے ہوئے جب جماعت کا وقت ہو جاتا ہے، تو میں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آجاتا ہوں۔اب اساتذہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگر تم یہاں جماعت کروالو ، تو بقیہ بھی نماز پڑھ لیں گے ۔اب آپ سے سوال یہ ہے کہ مسجد کے اتناقریب ہوتے ہوئے کیا اس اسکول میں مسجد کی جماعت کو چھوڑ کر نماز قائم کی جاسکتی ہے تاکہ دیگر بھی جماعت سے نماز پڑھ لیں ؟

سائل: محمد قاسم عطاری(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورت مسئولہ میں مسجد کی جماعت واجب ہے ۔مسجد کی جماعت چھوڑ کر اسکول میں جماعت  قائم کرنا ، جائز نہیں، کیونکہ  مسجد میں بغیر اسپیکر دی جانے والی اذان،شورو غل نہ ہونے کی صور ت  میں جہاں تک پہنچتی ہو، تو وہاں  کےعاقل،بالغ،غیرمریض مردپرمسجد کی پہلی جماعت واجب ہے ، جس کوبلاعذرِ شرعی  چھوڑنایامسجدکی جماعت چھوڑ کر اپنی جماعت قائم کر لینا جائز نہیں اور سوال میں بیان کردہ عذر ایسا عذرِ شرعی نہیں کہ جس کی وجہ سے مسجد کی جماعت چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہو سکے ، لہٰذا سب کوترغیب دلاکرمسجدمیں باجماعت نمازپڑھنے کاذہن دیناچاہیےکہ شریعت مطہرہ میں مسجدکی جماعت کی سخت تاکیدہے۔

     چنانچہ اذان سن  کر مسجد میں آکر جماعت سے نماز نہ پڑھنے کے بارے میں حدیث مبارک میں ہے: الجفاء كل الجفاء والكفر والنفاق من سمع منادی الله ينادی بالصلاة يدعو الى الفلاح ولا يجيبه ترجمہ:ظلم پورا ظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی ندا کرتا اور فلاح کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔(مسند احمد بن حنبل ، ج24، ص390، مطبوعہ مؤسسة الرسالة، بیروت)

     ایک حدیث میں فرمایا کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کی نماز ہی نہیں ہوتی۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روا یت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:من سمع النداء ولم یاتہ فلا صلوة لہ الا من عذرترجمہ: جس نے اذا ن سنی اور نماز کے لئے حا ضر نہ ہو ، تواس کی نماز ہی نہیں الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔( ابن ما جہ  ،ص57، مطبوعہ کرا چی)

     حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد کی جماعت چھوڑ کر نماز پڑھنے کے بارے میں ارشاد  فرماتے ہیں: لا صلاة لجار المسجد الا في المسجدقال الثوری في حديثه قيل لعلي:ومن جار المسجد؟ قال:من سمع النداءترجمہ:مسجدکے پڑوسی کی نمازنہیں ، مگرمسجدمیں۔امام ثوری علیہ الرحمۃکی حدیث میں ہے:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیاکہ مسجدکاپڑوسی کون ہے؟ارشادفرمایا:جواذان کی آوازسُنے۔(مصنف عبدالرزاق ،ج1،ص497،المکتب الاسلامی،بیروت)

     مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”جہاں تک اذان کی آواز پہنچے ، وہاں تک کے لوگوں کو مسجد میں آنا بہت ضروری ہے ۔وہ  دور کے لوگ جہاں اذان نہ پہنچی ہو ، ان کے لیے بھی مسجد آنا بہت بہتر ہے ، مگر اتنی سختی نہیں،اس حدیث کا یہی مطلب ہے۔لا صلاة لجار المسجد الا في المسجد۔۔۔اذان کی آواز پہنچے سے مراد آج کل کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز نہیں ؛ یہ تو دو دو میل تک پہنچ جاتی ہے۔(مرأۃالمناجیح ،ج2،ص168،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

     مسجد کے قریب ہوتے ہوئے مسجد کی جماعت چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے والے کے بارے میں امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”مگرفرائض بے عذرقوی مقبول اگرحجرہ میں پڑھے اور مسجد میں نہ آئے ،  گنہگار ہے، چندبار ایساہو ، توفاسق ، مردود الشہادۃ ہوگا۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ394-393،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

     ایک اور جگہ ارشادفرماتے ہیں:”پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ؛ ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے ۔“ (فتاوٰی رضویہ،جلد 7، صفحہ 194، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم