Masjid Mein Buland Awaz Se Tilawat Aur Aurad Parhna Kaisa?‎

مسجد میں بلند آواز سے تلاوت اور شجرے کے اوراد پڑھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:6765

تاریخ اجراء:16ذوالقعدۃ الحرام 1438ھ/09آگست2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد میں شجرہ شریف یا سورہ ملک  بلندآواز سے  پڑھنا  کیسا؟جبکہ بعض نمازی ابھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ؟اور بعض لوگ ابھی نماز پڑھنے کے لئے آرہے ہوتے ہیں، اس میں پڑھنے والے کے لئے کیا حکم ہے  اور نمازیوں  کے لئے کیا حکم ہے کہ قرآن سنیں یا نماز پڑھیں ؟

سائل:جمیل احمدعطاری(لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مل کر شجرہ شریف پڑھنا اچھا عمل ہے، اسی طرح مسجد میں ایک کا بلند آواز سے  قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور باقی  لوگوں کا اسے سننا  بھی  ثواب کا کام  ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام سے مسجد میں بلند آواز سے تلاوت کرنا اور سننا ثابت ہے۔

     صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:’’قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: «اقرأ علي» قلت: أقرأ عليك وعليك أنزل، قال: «إني أحب أن أسمعه من غيري»‘‘ یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:کہ مجھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ تو میں نے عرض کیا  میں آپ کو سناؤحالانکہ قرآن آپ ﷺ پر اترا ہے، فرمایا :میں پسند کرتا ہوں کہ اپنے غیر سے قرآن سنوں۔(الصحیح البخاری ،ج6،ص197، دار طوق النجا)

     اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:’’ أن ذلك كان وهو صلى الله عليه وسلم في بني ظفر أخرجه ابن أبي حاتم والطبراني وغيرهما من طريق يونس بن محمد بن فضالة عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتاهم في بني ظفر ومعه ابن مسعود وناس من أصحابه، فأمر قارئا فقرأ ‘‘ یعنی یہ واقعہ اس وقت ہوا جب نبی کریم ﷺ بنی ظفر میں تھے ابن ابی حاتم اور طبرانی وغیرھما نے یونس بن محمد بن فضالہ سے ،انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا، کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنی ظفر میں ان کے پاس تشریف لائے آپ کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود اور کچھ صحابہ رضی اللہ تعالی  عنھم بھی تھے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کو (بلند آواز سے )پڑھنے کا حکم دیا تو اس نے پڑھا۔(عمدۃ القاری،ج20،ص60، دار إحياء التراث العربي)

     دارمی ،ابن ماجہ، طبقات ابن سعد،مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں ہے(والنظم للآخر):’’عن أبي هريرة، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد فسمع قراءة رجل، فقال: " من هذا؟ " قيل: عبد الله بن قيس، فقال: " لقد أوتي هذا من مزامير آل داود‘‘ یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں تشریف لائے تو ایک شخص کی قراءت سنی تو فرمایا: یہ کون ہے؟ تو عرض کی گئی یہ عبد اللہ بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ،پھر فرمایا :بے شک اسے لحن داؤدی دیا گیا  ہے ۔(مسند احمد بن حنبل ج15،ص500،مؤسسة الرسالة)

     حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح میں احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی (المتوفی 1231 ھ ) فرماتے ہیں’’وقد كان صلى الله عليه وسلم إذا سلم من صلاته قال بصوته إلا على لا إله إلا الله وحده لا شريك له وتقدم وقد كان صلى الله عليه وسلم يأمر من يقرأ القرآن في المسجد أن يسمع قراءته وكان ابن عمر يأمر من يقرأ عليه وعلى أصحابه وهم يستمعون ولأنه أكثر عملا وأبلغ في التدبر ونفعه متعد لإيقاظ قلوب الغافلين وجمع بين الأحاديث الواردة بأن ذلك يختلف بحسب الأشخاص والأحوال فمتى خاف الرياء أو تأذى به أحد كان الإسرار أفضل ومتى فقد ما ذكر كان الجهر أفضل قال في الفتاوى لا يمنع من الجهربالذكر في المساجد ‘‘یعنی :رسول اللہﷺجب نماز کا سلام پھیرتے تو بلند آواز سے لا إله إلا الله وحده لا شريك له پڑھتے تھے اور گزرا، کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تلاوت کرنے والے کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنی قراء ت سنائے اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی قرآن سنانے والے کو حکم دیتے تھے (کہ بلندآواز سے پڑھے )اوروہ اس کی تلاوت سن رہے ہوتے تھے اور (بلند آواز سےپڑھنا اس لئے بھی افضل ہے  )کیونکہ یہ عمل میں زیادہ ،غور تفکر  میں ابلغ اوراس کا نفع غافل دلوں کو جگانے  کے لئے متعدی ہے اس بارےمیں مروری احادیث کے درمیان تطبیق یوں ہے کہ اشخاص و احوال کے اعتبار سے حکم مختلف ہو گا  پس جب ریا کاری کا خوف ہو یا بلند آواز سے کسی کو تکلیف ہو تو آہستہ آواز سے پڑھنا افضل ہے اور جب مذکور قباحتیں نہ ہوں تو بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے فتاوی میں فرمایا کہ مساجد میں بلند آوازسے ذکر کرنے سے منع نہ کیا جائے ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،صفحہ318،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

     یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ آواز بلند کرنے سے خود کویا کسی اور کو  اذیت نہ ہو،اگر آوازاتنی بلند کی کہ خود کو تکلیف ہویا کسی کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہو، تو اتنی بلند آواز سے پڑھنا ناجائز ہے، اسی طرح جب بلند آوازسے تلاوت کر رہے تھے،اس وقت کوئی نماز میں مشغول نہیں تھا بعد میں کوئی شخص آیا توحکم ہے، کہ آواز اتنی آہستہ کر دیں کہ اس کی نماز میں خلل واقع نہ ہو اور  اس کے لئے  بھی بہتر یہ ہے کہ پہلے تلاوت سن لے پھر نماز میں مشغول ہو ورنہ وہاں سے اتنی دور ہو کر نماز پڑھے کہ اسے آواز کی وجہ سے پریشانی نہ ہو  اسی طرح جو شخص نماز کے بعد سنتیں پڑھ چکا ابھی نوافل پڑھنے ہیں تو اس کے لئے نوافل میں مشغول ہونے سے  افضل  تلاوت ِقرآن سننا ہے ،تو اس کو چاہیے کہ قرآن مجید کی تلاوت  پہلے سن لے ورنہ دورہو کر نما ز پڑھے،تاکہ آواز کی وجہ سے پریشانی نہ ہو اورتلاوت کرنے والے کو بھی چاہیے کہ آواز اپنی اتنی رکھے جو صرف حاضرین تک پہنچے ۔

     مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:’’أن رسول صلى الله عليه وسلم نهى أن يرفع الرجل صوته بالقراءة قبل العشاء وبعدها فيغلط أصحابه وهم يصلون‘‘کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا اس سے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے اور بعد بلند آواز سے تلاوت کرے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو مغالطے میں ڈال دے گا حالانکہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔(مسند الإمام أحمد بن حنبل ،ج2،ص190، مؤسسة الرسالة)

     اما م اہلِ سنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتےہیں :’’ قرآن عظیم کی تلاوت آواز سے کرنا بہتر ہے مگر نہ اتنی آواز سے کہ اپنے آپ کو تکلیف یا کسی نمازی یا ذاکر کے کام میں خلل ہو یا کسی جائز نیند سونے والےکی نیند میں خلل آئے یا کسی بیمار کو تکلیف پہنچے یا بازار یا سرایا عام سڑک ہو یا لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہیں اور کوئی سننے کے لئے حاضر نہ رہے گا ،ان صورتوں میں آہستہ ہی پڑھنے کا حکم ہے‘‘(فتاوی رضویہ،ج3،ص382،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     مزید فتاوی رضویہ میں سوا ل ہوا:’’اگر کوئی مسجد میں بآواز بلند درود  و  وظائف، خواہ تلاوت کررہاہو اس سے علیحدہ ہو کر نماز پڑھنے میں بھی آواز کانوں میں پہنچتی ہے، لوگ بھو ل جاتے ہیں، خیال بہک جاتا ہے، ایسے موقع پر ذکر بالجہر تلاوت کرنے والے کو منع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ یعنی آہستہ پڑھنے کو کہنا بالجہر سے منع کرنا، اگر نہ مانے تو کہاں تک ممانعت کرناجائز ہے ؟تو جوابا امام اہل ِ سنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے فرمایا : بیشک ایسی صورت میں اسے جہر سے منع کرنا فقط جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ نہی عن المنکر ہے اور کہاں تک کا جواب یہ کہ تا حد قدرت جس کا بیان اس ارشاد اقدسِ حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ہے:’’من رأی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان‘‘جو تم میں کوئی ناجائز بات دیکھے اس پر لازم ہے کہ اپنے ہاتھ سے اسے مٹادے بند کردے،اور اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے منع کرے ، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اسے بُراجانے، اور یہ سب میں کمتردرجہ ایمان کا ہے ۔

     اور جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں اور قرآن عظیم کے استماع کے لئے کوئی فارغ نہ ہو وہاں جہراً تلاوت کرنے والے پر اس صورت میں دوہرا وبال ہے، ایک تو وہی خلل اندازیِ نماز وغیرہ کہ ذکر جہر میں تھا، دوسرے قرآن عظیم کو بے حرمتی کے لئے پیش کرنا ‘‘(فتاوی رضویہ ،ج8،ص99،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

     مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں :''جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا ہو کہ بآواز پڑھنے سے اس کی نماز یا نیند میں خلل آئے گا وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے، مسجد میں جب اکیلا تھا اور بآواز پڑھ رہاتھا جس وقت کوئی شخص نماز کے لئے آئے فوراً آہستہ ہوجائے۔ ‘‘(فتاوٰی رضویہ،جلد8،صفحہ100،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

     بہار شریعت میں غنیۃ سے منقول ہے :’’ قرآن مجید سُننا،  تلاوت کرنے اور نفل پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘(بہار شریعت،ج1،حصہ3،ص552،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم